پرائیویٹ وارڈ
ابھی ابھی کوئی بوسیدہ شہر گزرے گا
ٹرین
کالے اندھیرے کی شاخ سے لپٹی
پرانی بجھتی ہوئی لالٹین دیکھے گی
تمام چہرہ حویلی ہے
ہاتھ اور پاؤں
ڈھکے ہوئے ہیں لبادوں سے
کوئی ہنستا ہے
ازل کی بوند سے
انتم سراغ کی کھائی
ذرا سی روشنی دیتی ہے
بالکنی سے
ادھیڑ عمر کی عورت بھی گرنے والی ہے
مکاں کے سامنے حصے میں
کار رکتی ہے
اب آئے ڈاکٹر
کیسے ہو
بال ڈاڑھی کے
سفید تنکوں میں تبدیل ہو گئے ہیں کیا
بدن کتاب کا پنا ہے
روشنی پھینکو
تمہاری پیٹھ سے
جو سیڑھیاں نکلتی ہیں
تم ان پہ چڑھ کے ابھی اپنی کھوئی بھیڑوں کو
صدائیں دوگے
پکڑ لے گا بارشوں کا غم
یہ کیسا شور ہے چھت پر
عجب حویلی ہے
عجیب شور ہے مجھ میں
ٹرین رکتی ہے
ابد کا پانی
اترتا ہے لالٹین میں کیا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.