پکار
یہ کچی کلیاں گلاب جیسی
یہ کس نے ان کو مسل دیا ہے
یہ کس نے ان کو کچل دیا ہے
کہ شاہراہوں میں ہیں فسردہ
کہاں ہیں مالی کہاں ہیں غنچے
کہاں گئے سب محافظ گل
لہو کا کس نے خراج مانگا
کہ صحن گلشن لہو لہو ہے
کبیدہ مالی فسردہ غنچے
حدوں سے اپنی گزر گئے ہیں
ادھر ادھر سب بکھر گئے ہیں
حصار ظلمت میں کھو گئے ہیں
ہے کون ان کو اذان دے کر
صفوں میں لا کر کھڑا کرے گا
ہوس کے بندوں کو درس دے گا
دیا جلا کے اخوتوں کا
یہ ظلم ہم سب سہیں گے کب تک
یہ آشیانے جلیں گے کب تک
اداس گلشن رہے گا کب تک
یہ خون ناحق بہے گا کب تک
اداس نسلوں کے وارثو تم
لہو کا کب تک خراج دو گے
انا کی مورت کو توڑ ڈالو
ہوس کے بندو ستم ظریفو
اخوتوں کا سلام لے کر
محبتوں کا پیام لے کر
بڑھو کہ منزل پکارتی ہے
بڑھو کہ منزل پکارتی ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.