سحر دم
کے جب چار پچیس بجتے ہیں
لوکل گزرتی ہے
مدت ہوئی
میں اسی وقت بیدار ہوتا ہوں
یوں زندگی کے تسلسل کا حصہ رہا ہوں
کئی سال پہلے جو میں نے کہانی لکھی تھی
اسے آج پھر پڑھ رہا ہوں
گھڑی کی طرف بھی نگاہیں ہیں میری
اداسی میں ڈوبا چلا ہوں
کہانی کے کردار
یوں سامنے مسکراتے کھڑے ہیں
کہ جیسے ابھی
آج اسی ایک لمحے میں
تخلیق ہاتھوں سے میرے ہوئی ان کی
میں دیکھتا ہوں
یہ ذاکر
یہ سلمیٰ
یہ سلمیٰ کی امی
یہ سلمیٰ کی چھوٹی بہن
گوری جاپانی گڑیا
شرارت سے کرتے پہ میرے
قلم کی سیاہی سے تجریدی پینٹنگ میں مشغول
ہنستی چلی جا رہی ہے
کہانی کے کردار
لفظوں کی چادر میں لپٹے ہوئے سو رہے ہیں
مگر گفتگو ان کی
سب اختراعی تھی میری
سبھی باتیں میں کر رہا تھا
مجھے فکر ہے میری لوکل نہ چھوٹے
زمانہ ہوا
اس کہانی میں
میں بھی کہیں ہوں
کہانی سناتا ہوں
کردار کے منہ سے میں بولتا ہوں
اچانک وہ کردار
ماضی کی خوابیدہ بوجھل فضا سے نکل کر
مرے سامنے آ کھڑے ہوں
تو ممکن ہے
پہچان ان کی مرے واسطے
خوب تکلیف دہ جاں گسل اور دشوار ہو
میں اداسی میں ڈوبا چلا ہوں
کئی سال پہلے جو میں نے لکھی تھی
کہانی اسے پڑھ رہا ہوں
کہیں پہلی لوکل نہ چھوٹے
کہانی نہ بن جاؤں میں بھی
کہیں دوسرا مجھ کو پڑھنے نہ بیٹھے کوئی
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.