قابیل کا سایہ
خدا کے خوف سے اپنے گناہوں پر خجل ہو کر
وہ پیہم گریہ کرتا تھا
وہ اپنے بھائی کے لاشے پہ پیہم گریہ کرتا تھا
لہو آواز دیتا تھا زمیں کی خاک رسوا سے
خدا کا عرش کانپ اٹھتا تھا اس فریاد کو سن کر
برادر کش سزا پاتے تھے پتھر بن کے جیتے تھے
اور ان کے دل کی دھڑکن بند ہو جاتی تھی سینوں میں
اور ان کا خون ان کی سرد شریانوں پہ ہنستا تھا
مگر اس دور میں کوئی خدا ایسا نہیں کرتا
کہ اب شہروں کی حالت اگلے صحراؤں سے بہتر ہے
کہ اب شہروں میں مار و اژدر و کرگس نہیں ملتے
کتب خانوں میں افکار و عقائد جلوہ فرما ہیں
ہزاروں درس گاہیں داعئ اقدار انساں ہیں
سیہ سڑکوں پہ کاریں ہیں فضاؤں میں ہیں طیارے
عمارات بلند اپنے فلک پیما دریچوں سے
مکوڑوں کی طرح چلتے ہوئے جسموں کو تکتی ہیں
ہمارے شہر مامن ہیں ہمارے شہر گلشن ہیں
اب ان شہروں میں فرسودہ خدا کی کیا ضرورت ہے
خدا خاموش ہے اور خوف و غم سے نیم جاں انساں
ہوا کی لہر کو بھی موت کی آہٹ سمجھتے ہیں
کسی کو کچھ نظر آتا نہیں لیکن کوئی جذبہ
یہ چپکے چپکے کہتا ہے کہ اے ہابیل اے ہابیل
ہلاکت کے نئے سامان سے آراستہ ہو کر
گلی کوچوں میں آ پہنچا ہے پھر قابیل کا سایہ
- کتاب : namuud (Pg. 52)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.