قانون قدرت
گلیوں کی شمعیں بجھ گئیں اور شہر سونا ہو گیا
بجلی کا کھمبا تھام کر بانکا سپاہی سو گیا
تاریکیوں کی دیویاں کرنے لگیں سرگوشیاں
اک دھیمی دھیمی تان میں گانے لگیں خاموشیاں
مشرق کے پربت سے ورے ابھریں گھٹائیں یک بیک
انگڑائیاں لینے لگیں بے خود ہوائیں یک بیک
تارے نگلتی بدلیاں چاروں طرف چھانے لگیں
چھم چھم پھواروں کی جھڑی دھرتی پہ برسانے لگیں
کتے اچانک چونک کر بھونکے دبک کر سو گئے
بے رس چچوڑی ہڈیوں کی لذتوں میں کھو گئے
مائیں لپکتی ہیں کہیں بچے بلکتے ہیں کہیں
اور کھاٹ لینے کے لیے بوڑھے اچکتے ہیں کہیں
اک سرسراہٹ سی اٹھی لہرائی تھم کر رہ گئی
ہر چیز نے آنکھیں ملیں ہر چیز جم کر رہ گئی
پھر گنگناتی ظلمتوں کا سحر ہر سو چھا گیا
بادل کہیں گم ہوگئے تاروں پہ جوبن آ گیا
قدرت کے سب چھوٹے بڑے قانون ہیں یکساں مگر
پردے پڑے ہیں جا بجا چھنتی نہیں جن سے نظر
انسان کا معصوم دل تاریک سونا شہر ہے
جس کے تلے احساس کی چنگاریوں کی لہر ہے
جب دیکھتا ہے وہ کہیں بدمست پنگھٹ والیاں
گالوں کو جن کے چومتی ہیں پتلی پتلی بالیاں
زلفیں گھٹاؤں کی طرح آنکھیں ستاروں کی طرح
چلنا ہواؤں کی طرح رنگت شراروں کی طرح
لہنگے کی لہروں کے تلے مکھن سے پاؤں رقص میں
پگڈنڈیوں کے اس طرف گاگر کی چھاؤں رقص میں
سینے چھلکتے مے کدے اور ہونٹ پیمانوں کے لب
ٹخنوں پہ بجتی جھانجھنیں ہنسنا ہنسانا بے سبب
یہ دیکھ کر انگڑائیاں لیتا ہے دل انسان کا
اور اس کی ہر دھڑکن پہ ہوتا ہے گماں طوفان کا
گلیوں میں چھپ جاتی ہیں جب یہ چلتی پھرتی بجلیاں
ہوتا ہے طاری روح پر سنسان راتوں کا سماں
- کتاب : meri behtareen nazam (Pg. 25)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.