سوچ کہاں جا کر ٹھہرے گی
اندھیارے میں کب تک خود کو ڈھونڈو گے
شب کا سفر تو صبح پہ جا کر رکتا ہے
لیکن یہ شب کتنی کڑی ہے
برسوں سے اک دوراہے پر
دم سادھے چپ چاپ کھڑی ہے
خود کو ڈھونڈتے ڈھونڈتے آخر
شب کے یہ بے نام مسافر
بے حس گونگے سائے بن کر
اندھیاروں میں ڈوب گئے ہیں
یہ سب کتنے بد قسمت ہیں
دل بھی ان کے دیپ کی صورت جل نہ سکے
آنکھ سے بھی اک روشن آنسو ڈھل نہ سکا
اندھیارے میں خود کو کب تک ڈھونڈو گے
دیواروں سے کب تک یوں سر پھوڑو گے
آؤ میرے ساتھ چلو تم
گرچہ میرے ہونٹ سلے ہیں پھر بھی
میرے ہاتھوں میں روشن ہیں
آج بھی لفظوں کی قندیلیں
ان سے پھوٹتی روشنی کی مدھم لہروں میں
خود کو دیکھو اپنے قاتل کو پہچانو
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.