قلم
اے قلم کیا کہوں میں سحر بیانی تیری
حال دل اپنا سناتا ہوں زبانی تیری
تو کھلاتا ہے نئے گل جو رواں ہوتا ہے
رنگ یہ شاخ گل تر میں کہاں ہوتا ہے
تیری آواز ہے کانوں کو صریر دل کش
سو ترانوں سے ہے بہتر یہ نفیر دل کش
اک جہاں پر ہے تسلط ترا قبضہ تیرا
ہر زمانے میں چلا کرتا ہے سکہ تیرا
ذوق ہے جن کو سمجھتے ہیں وہ توقیر تیری
چٹکیاں دل میں لیا کرتی ہے تحریر تیری
بڑھ کے اعجاز سے ہے سحر نگاری تیری
نقش دل کش میں ترے شکل ہے پیاری تیری
کبھی دو لفظوں میں روتوں کو ہنسا دیتا ہے
ہنسنے والوں کو کبھی تو ہی رلا دیتا ہے
ہم نے بچتے نہ سنا ایک بھی مارا تیرا
جو ہے تلوار وہ ہے مانتی لوہا تیرا
تیری رفتار سے دل وقف الم ہوتے ہیں
تیری جنبش سے سر اکثر کے قلم ہوتے ہیں
بھیجتا ہے کبھی پیغام محبت تو ہی
دل مغموم کو ہے باعث حجت تو ہی
دشمن جان حزیں عیسیٰ دوراں تو ہے
سم قاتل ہے کبھی چشمۂ حیواں تو ہے
کوئی کس طرح کہے آج سے کل سے تو ہے
سب کو تسلیم یہ ہے روز ازل سے تو ہے
ختم تا حشر نہیں ہوگا کبھی کام تیرا
صفحۂ دہر سے مٹنے کا نہیں نام تیرا
جتنی دنیا میں کتابیں ہیں رقم کیں تو نے
جلوہ افروز نظر پیارے قلم کیں تو نے
تیری جنبش کا نتیجہ ہیں یہ دفتر لاکھوں
نقش خوش رنگ کے ممنون ہیں پتھر لاکھوں
تیرا لکھا ہوا میرا خط تقدیر بھی ہے
کیا کہوں لوح جبیں پر تری تحریر بھی ہے
دو جہاں میں ہے لقب خامۂ قدرت تیرا
اللہ اللہ یہ ہے پایۂ رفعت تیرا
تیری ممنون مری سینکڑوں تحریریں ہیں
تیری کھینچی ہوئی خوش رنگ وہ تصویریں ہیں
اے قلم رشتۂ الفت ترا ٹوٹے نہ کبھی
ہاتھ سے باسطؔ رنجور کے چھوٹے نہ کبھی
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.