قصر ویراں
میں اس کو تکتا رہتا ہوں
جو فرخ زاد کی غزلوں
کی صورت خوب صورت ہے
کہ جس کے پھول سے تن کو
کسی رنگین تتلی کے
رسیلے معتبر ہونٹوں
کے بوسوں کی ضرورت ہے
وہ اک شہکار ہے شاید
خدائے پاک کے فن کا
کہ جس کی سادگی میں بھی
ہے رقصاں حسن کا جادو
کمر سینہ ہو گردن ہو
کہ اس کے دست اور بازو
تراشیں سب کی ایسی ہیں
کہ جیسے لعل کے چاقو
جبیں پر ماہ کا جلوہ
اور اس پر ابر کے گیسو
سلگتے گورے گالوں پر
شفق کے غازے کی خوشبو
گلابوں سے پھڑکتے لب
اور اس پر پیاس بے قابو
ہیں نرگس کی طرح اس کی
چمکتی جھیل سی آنکھیں
مگر بے نور ہیں ایسی
کہ جیسے تنگ غاروں کی
سیہ پلکوں پہ ٹھہرے ہوں
اندھیری رات کے آنسو
یہ منظر روح پر میری
پگھلتے شیشوں کی صورت
مقطر ہوتا رہتا ہے
کہ جس کی سوزشوں میں میں
تڑپتا چیختا رہتا
ہوں صبح و شام ہر اک پل
کہ میری دھڑکنوں سانسوں
کو چاہے منجمد کر دو
مگر اس خوب رو دنیا
کے تاریک آسمانوں کو
مری آنکھوں کے تاروں سے
جہاں تک ہو سکے بھر دو
یہ سن کر قصر کے سارے
در و دیوار پر طوفاں
سا برپا ہونے لگتا ہے
کہ اے نادان شہزادے
تو ایسا کر نہیں سکتا
جنوں کی اجڑی مانگوں میں
تو افشاں بھر نہیں سکتا
تری دھڑکن تری سانسیں
تری خوابوں سے پر آنکھیں
ترے اجداد کے سورج
کی کرنوں کی امانت ہیں
جو شاہی تخت پر روشن
چراغوں کی ضمانت ہیں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.