Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

قطرہ جھیل سمندر

مبارک احمد

قطرہ جھیل سمندر

مبارک احمد

MORE BYمبارک احمد

    زمیں پہ بیٹھ کر کوئی

    اگر کہے

    کہ چاند ایک ابروئے خمیدہ کی مثال ہے

    تو تو کہے گا

    دوریٔ نگاہ میں تو اک سوال ہے

    بایں دلیل

    تجھ سے کہہ رہا تھا میں

    کہ چرخ نیل سے

    نگاہ کو ہٹا ذرا

    سمٹتی پھیلتی فضائے نیل گوں کے دائرے میں

    چند روز کے لئے پھسلنا چھوڑ کر

    مرے قریب

    اس قدر قریب آ

    کہ تیرے میرے درمیاں

    ہر ایک فاصلہ مٹے

    تو پھر کہیں تجھے پتا چلے گا یہ

    کہ میری آنکھ میں

    چمکتا قطرہ بھی نہیں

    چمکتی جھیل بھی نہیں

    یہ بحر ہے

    یہ بحر جس کی ہر مچلتی لہر اس سکون کا پیام ہے

    مگر میں بھی ڈرتا ہوں

    میں جانتا ہوں بحر بے کنار میں

    کئی جگہ بھنور بھی ہیں

    ہر ایک لہر

    گھومتے بھنور کو دیکھنے کے واسطے

    اچھل اچھل کے موج تند و تیز بنتی جائے گی

    ہر ایک موج

    گھومتے بھنور کو بس میں لانے کے لئے

    بڑھے گی

    مٹتی جائے گی

    بھنور کے دائرے کو اور بھی بڑھائے گی

    بھنور جو آج گھومتا ہے سیل رنگ آب پر

    مگر ابھی سکون ہے

    مگر میں پھر بھی ڈرتا ہوں

    کہ یہ سکوں تلاطم نہفتہ کی دلیل ہے

    تلاطم نہفتہ کے خیال سے

    فرار چاہتا ہوں میں

    لو آج میں نے ایک ڈھنگ سوچ ہی لیا

    مگر یہ کیسی اندھی سوچ ہے

    میں اپنا ہاتھ آنکھ پر رکھے ہوئے ستادہ ہوں

    ہر ایک سمت

    سوچ کی حدوں سے دور

    تیرگی میں گہرا اک سہانا راز ہے

    ہر ایک انگ

    مست مست نرم نرم راگنی کا ساز ہے

    مگر میں پھر بھی ڈرتا ہوں

    کہ یہ سکون ساعت فتیلۂ حیات ہے

    حیات میں غلط سمجھ رہا تھا اتنی دیر سے

    حیات اس جگہ کہاں حیات تو

    افق کی سرخیوں سے دور

    اجنبی دیار میں

    وفور شوق کے طفیل

    فرق ایں و آں کو چھوڑ کر

    ایک رنگ کا لبادہ اوڑھ کر

    کھڑی ہے میرے انتظار میں

    تو کیوں نہ میں وہاں چلوں

    مگر جب آگے بڑھنے

    رستہ دیکھنے کے واسطے

    میں اپنا ہاتھ آنکھ سے ہٹاتا ہوں

    تو اپنے آگے ایک بحر بیکراں کو پاتا ہوں

    مگر یہ کیا

    کہ تو تو اب بھی کہہ رہا ہے

    تیری آنکھ میں چمکتے قطرے کی مثال ہوں

    تجھے خبر نہیں

    کہ یہ سبھی ایک دوریٔ نگاہ کا سوال ہے

    ذرا مرے قریب آ کے دیکھ میری آنکھ میں

    چمکتا قطرہ بھی نہیں

    چمکتی جھیل بھی نہیں

    یہ بحر ہے

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے