Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

قلعۂ اکبرآباد

اسماعیل میرٹھی

قلعۂ اکبرآباد

اسماعیل میرٹھی

MORE BYاسماعیل میرٹھی

    وہ بارگہ خاص کی پاکیزہ عمارت

    تاباں تھے جہاں نیر‌ شاہی و وزارت

    بڑھتی تھی جہاں نظم و سیاست کی مہارت

    آتی تھی جہاں فتح ممالک کی بشارت

    جوں شحنۂ معزول پڑی ہے وہ اکارت

    سیاح کیا کرتے ہیں اب اس کی زیارت

    کہتا ہے سخن فہم سے یوں کتبہ دروں کا

    تھا مخزن اسرار یہی تاج وروں کا

    اورنگ سیہ رنگ جو قائم ہے لب بام

    بوسہ جسے دیتا تھا ہر اک زبدۂ عظام

    اشعار میں ثبت اس پہ جہانگیر کا ہے نام

    شاعر کا قلم اس کی بقا لکھتا ہے مادام

    پر صاف نظر آتا ہے کچھ اور ہی انجام

    سالم نہیں چھوڑے گی اسے گردش ایام

    فرسودگئ دہر نے شق اب تو کیا ہے

    آئندہ کی نسلوں کو سبق خوب دیا ہے

    ہاں کس لیے خاموش ہے او تخت جگر ریش

    کس غم میں سیہ پوش ہے کیا سوگ ہے در پیش

    کملی ہے ترے دوش پہ کیوں صورت درویش

    جوگی ہے ترا پنتھ کہ صوفی ہے تیرا کیش

    بولا کہ زمانے نے دیا نوش کبھی نیش

    صدیاں مجھے گزری ہیں یہاں تین کم و بیش

    صدقے کبھی مجھ پر گہر و لعل ہوئے تھے

    شاہان معظم کے قدم میں نے چھوئے تھے

    اس عہد کا باقی کوئی ساماں ہے نہ اسباب

    فوارے شکستہ ہیں تو سب حوض ہیں بے آب

    وہ جام بلوریں ہیں نہ وہ گوہر نایاب

    وہ چلمنیں زر تار نہ وہ بستر کم خواب

    ہنگامہ جو گزرا ہے سو افسانہ تھا یا خواب

    یہ معرض خدام تھا وہ موقف حجاب

    وہ بزم نہ وہ دور نہ وہ جام نہ ساقی

    ہاں طاق و رواق اور در و بام ہیں باقی

    درشن کے جھروکے کی پڑی تھی یہیں بنیاد

    ہوتی تھی تلا دان میں کیا کیا دہش و داد

    وہ عدل کی زنجیر ہوئی تھی یہیں ایجاد

    جو سمع شہنشاہ میں پہنچاتی تھی فریاد

    وہ نورجہاں اور جہانگیر کی افتاد

    اس کاخ‌‌ ہمایوں کو بہ‌‌تفصیل ہے سب یاد

    ہر چند کہ بیکار یہ تعمیر پڑی ہے

    قدر اس کی مورخ کی نگاہوں میں بڑی ہے

    وہ دور ہے باقی نہ وہ ایام و ایالی

    جو واقعہ حسی تھا سو ہے آج خیالی

    ہر کوشک و ایوان ہر اک منزل عالی

    عبرت سے ہے پر اور مکینوں سے ہے خالی

    یہ جملہ محلات جو سنسان پڑے ہیں

    پتھر کا کلیجہ کیے حیران کھڑے ہیں

    مأخذ :
    • Tasvir-e-Manazil (Jild Avval)

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے