تساہل کی چادر لپیٹے ہوئے قصہ خوانی اک شام تھی
ہم وہاں اپنی دن بھر کی اس جان لیوا تھکن سے
نبرد آزما
خوب قہووں پہ قہوے کے پیالے لنڈھاتے رہے
اور اپنے بلند بانگ دعووں سے اور قہقہوں سے
کہیں گھونسلوں میں چھپے تھک کے سوئے ہوئے
نیم جاں طائروں کو جگاتے رہے
اور گزرے زمانے کے پیروں فقیروں کی کوئی نہ کئی کرامت سناتے رہے
(کس طرح صاحبان کرامات برزخ تو برزخ
شر انگیز زندوں کی روحیں بلانے پہ قادر
سبھی کو بد اعمالیوں سے بچاتے رہے)
پر جو یہ سب نہیں مانتے تھے
وہ نسوار کی تیز بو میں بسے
اینٹ گارے کے اک نیم پختہ تھڑے پر
بر افروختہ ہو کے انکار میں سر ہلاتے رہے
ہاں مگر وہ کہ جن کے لبوں پر
چرس اور گانجے کی اودی سی تہہ
مستقل جم گئی تھی
فقط مسکراتے رہے
اور سنگت میں موجود جو ''بچہ خوش'' تھے
وہ ہر آتے جاتے طرحدار کم عمر لڑکے کو
آنکھوں ہی آنکھوں میں پاتے رہے
پھر سب آپس میں مل کر
کراچی سے کندوز تک پیشہ کرتی ہوئی کسبیوں
ہیجڑوں اور لونڈوں کے
پر کیف قصے سناتے رہے
گدگداتے رہے
دل لبھاتے رہے
- کتاب : ishq ki taqweem men (Pg. 171)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.