قبولیت
اور پھر ایسے ہوا آنند خالی ہاتھ لوٹا
اور کہا بھگوان اس نگری میں ایسا
ایک دولت مند بھی ہے جس کو دولت سے کوئی رغبت نہیں ہے اور
سارا دھن ہمیں بھکشا میں دینا چاہتا ہے
ہم تو خالی ہاتھ لوٹے ہیں تتھاگت
بدھ بولے اس کا دینا فرض ہے لینا تمہارا
تم تہی دست طلب پھیلائے جھولی وا کیے جب
اس کے دروازے پہ جاتے ہو تو اپنا فرض سمجھو
جو بھی مل جائے کھلے ماتھے سے لے لو
میری دریوزہ گری کی یہ حدیث آخری ہے
گو مگو کی کیفیت میں تھا ابھی آنند بولا
پیر و مرشد سونا چاندی تو فقط مایا ہے اس سے
بھکشوؤں کا کیا تعلق
بدھ بولے
دست دریوزہ گر و درویش خالی ہے اگر اپنی انا سے
تو اسے کیا خوف مایا سے جو کل تک
دست حاتم میں تھی لیکن آج اس کی
اپنی جھولی میں پڑی ہے
صاحب ثروت کی حاتم کی سخاوت اس کی تشہیر انا ہے
اور تم اپنی انا تو ختم کر بیٹھے ہو یہ تم جانتے ہو
اس لیے جو بھی ملے منظور کر لو
جو ملے منظور کر لیں
ہاں سبھی کچھ
سونا چاندی اور دولت بھی تتھاگت
ہاں سبھی کچھ
اور بھکشا میں اگر عورت ملے تو
ہچکچائے ایک لمحہ چپ رہے پھر ایک آہ سرد بھر کر
زیر لب بولے قبولیت کی کوئی حد نہیں ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.