میں تھا قرب الٰہی سے شاد و مگن
اس سے محو سخن
کہ اچانک وہیں
ہاں حرم کے قریب
ایک معصوم بچی نے دیکھا مجھے
اس کی نظروں میں تو
حسرت و یاس تھی
اک زمانے کی شاید
وہاں پیاس تھی
ماں کی ممتا کی پیاس
بابا جانی کی پیاس
گھر کے آنگن کی پیاس
خوش لباسی کی پیاس
کھانے پانی کی پیاس
کھوئے بچپن کی پیاس
کچھ لڑکپن کی پیاس
گہنے کنگن کی پیاس
اس کی آنکھوں نے مجھ سے سبھی کہہ دیا
اس نے ہونٹوں کو ہلنے کی زحمت نہ دی
پیٹ پالے ہے وہ
ٹوپیاں بیچ کر
شہرتوں کو میاں
کچھ انا بیچ کر
اپنے سر پہ وہ چادر سجائے ہوئے
دھول مٹی سے خود کو بچائے ہوئے
سو سوالوں کو خود میں سمائے ہوئے
پیر تپتی زمیں پر جمائے ہوئے
ڈھانپتی ہے وہ لوگوں کے
سر اور بدن
باندھے سر پہ کفن
میرے دل نے کہا
شفقت باپ کیا ہے بتا دے اسے
ماں کی ممتا کہیں سے لا دے اسے
خواہشیں پوری ہوں
ساری پیاسیں بجھیں
آب زم زم کچھ ایسا پلا دے اسے
اس کے چہرے سے پھر میری نظریں ہٹیں
اور اچانک میں پھر قبلہ رو ہو گیا
ہاتھ اٹھے دعا کو کہ اے کبریا
تیرے گھر میں تو بس نور ہی نور ہے
پر ترے صحن میں
کتنی مایوس ننھی سی اک حور ہے
اس کی چادر کو پر نور کر دے خدا
اس کے غم سارے تو دور کر دے خدا
تیری رحمت کے دامن میں کیا کچھ نہیں
تیرے آنگن میں کب سے دعا گو ہے یہ
اے خدا تیرے آنگن میں کیا کچھ نہیں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.