قرۃالعین طاہرہؔ کے لیے ایک نظم
اے قتیل حرف لا
اے ماہ قزویں سن
ترے اقبال کا مرقد چراغ عصر تھا
اب طاق نسیاں میں سجایا جا چکا ہے
نیل کے ساحل سے لے کر تا بہ خاک کا شعر
اک خواب تھا شاید بھلایا جا چکا ہے
اور ہماری لوک دانش کا ہمارے مدرسوں میں داخلہ ممنوع ٹھہرا ہے
زر خالص لٹایا جا رہا ہے کوئلوں پر سخت پہرا ہے
پرانے معبدوں کے طاقچوں میں گرد اڑتی ہے
گلستاں بوستاں و بلبل شیراز بھی یاں اجنبی ٹھہرے
مجھے اب کون پوچھے گا
قتیل حرف لا
کائناتی اشاریہ
وہاں جو کچھ ہوا ہے روشنی مجھ کو بتاتی ہے
یہاں جو ہو رہا ہے روشنی تم کو بتائے گے
مگر یہ روشنی آگے بھی جائے گی
ہر اک شے کو بالآخر نور کے سانچے میں ڈھلنا ہے
ہمیں بھی دو قدم اس روشنی کے ساتھ چلنا ہے
یہ مشت خاک بھی مقدور بھر تو جگمگائے گی
مشیت مسکرائے گی
مگر یہ روشنی آگے بھی جائے گی
- کتاب : Pakistani Adab (Pg. 209)
- Author : Dr. Rashid Amjad
- مطبع : Pakistan Academy of Letters, Islambad, Pakistan (2009)
- اشاعت : 2009
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.