رائیگاں آزادیوں کے بے ثمر انچاس سال
میں سفر میں ہوں لئے کاندھوں پہ اپنی رائیگاں آزادیوں کے بے ثمر انچاس سال
سانس جب تک ساتھ ہے میں خواہشوں کا جگمگاتا ہاتھ تھامے
تیری ہم راہی میں ہوں
خواہشیں ایک شامیانہ ہیں لرزتی آخری ہچکی کے اور کچھ مانگتی پہلی صدا کے درمیاں
جس کے سائے میں گزرتے وقت کے وقت کے چلتے ہوئے لمحوں کو ملتا ہے سکوں
ہے انہی جلتے ہوئے لمحوں کی جگ مگ میں مری پہچان گم
لمحے چلتے ہیں گزرتا وقت اندھا ہے مگر
اور گزرتے وقت کی پہچان دیتا ہے تو مستقبل کا وہ نقش گریزاں ہفت رنگ
جو افق تک جائے مے راستے سے اب بھی برسوں دور ہے
میں سفر میں ہوں لئے کاندھوں پہ اپنی رائیگاں آزادیوں کے بے ثمر انچاس سال
ڈھونڈھتا ہوں آنے والے وقت میں اس ایک لمحے کو جو سچ کہنے کی جرأت دے مجھے
تاکہ مر جانے سے پہلے ایک بار
میں بھی اشیاء کو پکاروں ان کے اپنے نام سے
اس لئے کہ ہر کتاب آسمانی میں لکھا ہے سچ کہو
اور یہی خواہش ہے جو اب تک سراب خواب ہے
لیکن ایسا خواب دیکھا کس نے جو تعبیر کی حد میں نہ ہو
میں کہ اب بھی خواہشوں کا ہاتھ تھامے
تیری ہم راہی میں ہوں
میں نے اب تک کیسے کیسے نام دے کر تجھ کو دیکھا ہے خود اپنے رنگ میں
چاہتا ہوں اب کبھی تجھ کو پکاروں تیرے اپنے نام سے
اس لئے میں ہر نئے امکاں کی سرحد تک چلوں گا تیرے ہاتھ
راہ کی دیوار کیوں میرے لئے ہوں رائیگاں آزادیوں کے بے ثمر انچاس سال
اس لئے کہ سانس چلتی ہے تو ہر منزل مری بانہوں میں ہے
اس لئے کہ خواہشیں تو وقت کی مانند ہیں بے سن و سال
اس لئے کہ وقت کب بوڑھا ہوا بوڑھے تو ہوتے ہیں درخت
میں کہ اب بھی خواہشوں کا ہاتھ تھامے تیری ہم راہی میں ہوں
ہر نئے امکاں کی سرحد تک چلوں گا تیرے ساتھ
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.