راستہ بلاتا ہے
رنگ بجھنے لگے ہیں آنکھوں میں
بلڈنگیں جگنوؤں سی لگتی ہیں
چاند تارے کہاں ہیں کیا معلوم
لڑکیاں پھول سے بدن والی
اک ذرا پاس سے گزرتی ہوئی
جو مرا درد بانٹ لیتی ہیں
سو چکی ہوں گی اپنی قبروں میں
اب کہیں زندگی کا نام نہیں
بھوک نے پاؤں باندھ رکھے ہیں
پھر بھی چلنے پہ ہوں بہ ضد کہ ابھی
چند لاشیں ہیں حسرتوں کی جنہیں
صبح سے پہلے دفن کرنا ہے
بوجھ کچھ کم ہو تو کہیں بیٹھوں
اور پھر بیٹھے بیٹھے سو جاؤں
پھر کوئی خواب دیکھوں کل کے لیے
ابھی اک روز اور جینا ہے
- کتاب : دل پرندہ ہے (Pg. 120)
- Author : شکیل اعظمی
- مطبع : ریختہ پبلی کیشنز (2023)
- اشاعت : First
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.