Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

راستے میں شام کا مقدر ہونا

احمد ہمیش

راستے میں شام کا مقدر ہونا

احمد ہمیش

MORE BYاحمد ہمیش

    اس کے لہجے میں شام ہو رہی تھی

    اور راستے راستوں کو چھوڑتے ہوئے

    کسی اور راستے پر جا رہے تھے

    اس کا بدن خود سے الگ ہونے کے لئے

    اپنے ہی بدن سے پوچھ رہا تھا

    کنوارے رہنے کی تپسیا اکارت گئی

    کسی چاہنے والے کو

    اس نے ایک بوسہ بھی نہیں دیا

    اس کی مٹی نے کسی اور مٹی کو چھوا ہی نہیں

    شریعت کی آمریت کو

    خود اس نے ہی دعوت دی تھی

    ورنہ خدا سے کسی غلط کو

    غلط چھونے کی بات تو کبھی ہوئی ہی نہیں تھی

    اور کوئی ہم سے بھول کے

    ہماری آخری خواہش بھی نہ پوچھے

    ایسا تو کبھی ہوا ہی نہیں

    ڈوبتے ہوئے جہاز میں بھاگنے والے

    آخری چوہے کو بھی تو

    کسی نے بھی نہیں دیکھا

    سوائے اس کے کہ

    ڈبونے والے پانی نے

    خود کو دیکھا

    یا ڈوبنے والے کو دیکھا

    محبت جن رنگوں سے

    بنی ہوئی کہانی تھی

    اس کے کسی بھی کردار کو

    اس نے کبھی بھولے سے بھی پاس نہ آنے دیا

    ایک ٹھنڈی جامد بساط پر دوڑتی ہوئی

    مایوسی کو

    پرندہ بننے کی خواہش تو ضرور رہی ہوگی

    مگر کیا کوئی یہ دیکھ سکتا ہے کہ

    کسی بوتل سے کاگ ارنے کے منظر میں

    بوتل کے باطن پر کیا گزرتی ہے

    کسی غلط منہ سے نکلے ہوئے لفظ سے

    زندگی کی آب و ہوا پر کیا گزرتی ہے

    دنیا میں ہونے والے کسی بھی ظلم نے

    بس مثال ہی تو قائم کی

    ایک تاریخ ہی تو بنائی

    ہاتھ میں اٹھائے ہوئے ایک پتھر سے

    ان گنت ہتھیاروں تک

    درمیان میں

    زمانے تو ان گنت رہے ہوں گے

    یا تاریخ تو ایک ہی تھی

    کسی غلط کو سہی میں بدلنے کی خواہش

    دنیا کا نظام بدل سکتی تو

    آج تک ہم غلط خواب

    نہ دیکھ رہے ہوتے

    پھر یہ عذاب کیا ہے کہ

    ہم ایک پوری زندگی

    غلط خوابوں کے حوالے کرتے ہوئے

    خود خواب ہو جائیں

    یہ اور بات کہ

    پر اسرار غیب میں

    یقین نہ رکھنے والے کو بھی

    کسی بھی غیب سے

    کچھ پانے یا مدد لینے کی

    خواہش تو ہوتی ہے

    اور خواہش کا کیا ہے

    خواہش اگر زمین پر رینگنے والی

    چیونٹی بھی ہو تو

    وہ ہاتھی کو ہلاک کر سکتی ہے

    ایک چیونٹی ہاتھی کو

    اس لئے ہلاک کر دیتی ہے کہ

    اسے اس کے سر تک

    پہننے کی راہ کا گیان

    آدمی سے کہیں زیادہ ہوتا ہے

    افسوس کہ چیونٹی سے زیادہ

    گیان والا آدمی تو

    زمین پر پیدا ہی نہیں ہوا

    افسوس پہاڑ کی چڑھائی چڑھنے

    اور اونچی چوٹیوں کو

    سر کرنے والوں میں سے

    کوئی ایک بھی ایسا نہیں ہوا

    جو پہلے زندگی نام کے ہاتھی کے سرکی

    چڑھائی چڑھتا یا اس کے سر کو

    سر کر چکا ہوتا

    آدمی نے گھر بنایا

    اس میں رہنے کے لئے

    مگر وہ اس میں کبھی رہا اس لئے نہیں کہ

    روئے زمین پر

    کسی بھی گھر کا باطن نہیں بن سکا

    ایک پوری دنیا کا ظاہر تو

    ہماری نظر میں رکھ دیا گیا

    مگر باطن سے بنی ہوئی

    کوئی دنیا تو بنی ہی نہیں

    تو ہم کیا دیکھتے

    یا دکھانے والوں سے ہم کیا کہتے

    یا اس سے کیا کہتے

    جس کے لہجہ میں شام ہونے سے پہلے

    دن کی روشنی کی

    کوئی بساط تو رہی ہوگی

    پلٹ کے کچھ دیکھنے کی ادا بھی

    نہیں معلوم تھی

    ورنہ کوئی کہہ سکتا ہے کہ

    اسے اسباب سے بھری ہوئی دنیا سے

    کچھ میسر آیا

    نہیں کچھ بھی تو نہیں

    یا جو دنیا

    اسباب سے بھری ہوئی دکھائی گئی

    وہ خود اپنی جگہ تھی بھی یا نہیں

    اور اس کی کوئی بھی شے

    اپنی جگہ تھی بھی یا نہیں

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے