اب آنکھیں تو کھولو
اب آنکھیں تو کھولو
کہ اب رات سے رنگ تک کا
ہر اک فاصلہ گھٹ چکا ہے
وہی رات ہاں ہاں وہی رات
کل جس کی باہوں میں چمٹے ہوئے تھے
ادھورے سوالوں کے کچھ اجنبی سے اشارے
بہکتے خیالوں کے بے حس شرارے
وہی رات ہاں ہاں وہی رات
جو درد کے اک دہکتے سفر پر
دعاؤں کی کچھ داستاں
گنگناتے سمٹتی چلی جا رہی تھی
ہراساں ہراساں پریشاں پریشاں
وہی رات ہاں ہاں وہی رات
جس کی نگاہوں میں خوابیدہ تھے
خوف کے کچھ پر اسرار سائے
وہی رات کل تھی
وہی رات اب ہے
مگر یہ ہوا کیا
کہاں سے یہ سیلاب آیا
سرابوں کا ہر سلسلہ کٹ چکا ہے
دھندلکوں کا ہر قافلہ بٹ چکا ہے
کہ اب رات سے رنگ تک کا
ہر اک فاصلہ گھٹ چکا ہے
اب آنکھیں تو کھولو
اب آنکھیں تو کھولو
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.