رد
اے وادیٔ خشک و سبز پربت
تو اپنی خوشبو سے ڈر رہی ہے
ترے صحیفہ نما بدن پر
یہ کیسی آیت اتر رہی ہے
ترے فسوں ناک راستوں پر
گھنیری رت کی مسافتیں ہیں
فضائیں پہروں میں بٹ چکی ہیں
ہواؤں تک میں عداوتیں ہیں
سکوت زنداں کی پتلیوں پر
نگاہ تیرہ نظر کا دکھ ہے
ہر ایک روزن سے آتا جاتا
ادھر کا دکھ ہے ادھر کا دکھ ہے
فرشتگان وحی کے ہاتھوں
سے سارے الفاظ گر چکے ہیں
قلندران روایت رد
خود اپنے دیں سے ہی پھر چکے ہیں
بغاوتوں کے علم پہ کندہ
اطاعتوں کا نشان واقف
اصول گاہوں کے منبروں پر
شرائط حکم و شیخ و منصف
ترے تنفس کے پیش و پس پر
لبوں کی لغزش گواہ جیسے
تری جبیں پر اگی لکیریں
صف شکستہ سپاہ جیسے
سو اب فقط دن گزر رہے ہیں
صدائے زنجیر مستقل سے
نہ رونق نو نہ دھوپ کی لو
اتر گئی جان جیسے دل سے
شراب آنکھوں سے اگتا جھرنا
بھٹک کے رستہ سا بن رہا ہے
بڑھا تعدد سرور و مے کا
جنون دستک کو جن رہا ہے
اے وادیٔ خشک و سبز پربت
تو اپنی خوشبو سے ڈر رہی ہے
ترے صحیفہ نما بدن پر
یہ کیسی آیت اتر رہی ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.