رہ گزشت
رات بھر حسن تصور سے جلا پاتے رہے
خواب میرے رخ مہتاب کو شرماتے رہے
جن بہشتوں سے میں گزرا ہوں وہ یاد آتی گئیں
شیخ کل خلد کی تعریف جو فرماتے رہے
جنت و دوزخ و اعراف سے میں گزرا ہوں
خنکیٔ حسن کے شعلے مجھے پگھلاتے رہے
وہ تحیر وہ نگاہوں کا تجسس ہے ہے
خواب سے ہوش کے عالم میں نظر آتے رہے
رقص کرتا رہا ہر ذرہ رہ غربت میں
کیا بگولے تھے مرے گرد جو منڈلاتے رہے
ہاتھ خالی تھا مرا اور بھری تھیں آنکھیں
جام لبریز مئے ناب سے ٹکراتے رہے
اجنبی چہرے جو مانوس نظر آتے تھے
اپنی خاموشی میں کیا کچھ نہیں فرماتے رہے
ٹوٹ کے گرتے رہے بن کے شہاب ثاقب
شعر و الہام کے موتی کبھی برساتے رہے
کچھ عزازیل و سرافیل بھی رستے میں ملے
ان کے چنگل سے مگر بچ کے نکل آتے رہے
قصۂ غیب چھڑا یا سخن بود و عدم
شمع کے گرد پتنگے تھے کہ منڈلاتے رہے
آنچ سہتے رہے فرقت کی بھی آشوب کی بھی
جی کو خوابوں سے خیالوں سے بھی بہلاتے رہے
کبھی بے ساختہ پھولوں کی طرف اٹھے قدم
کبھی خوشبو ہی سے ہم روح کو مہکاتے رہے
ڈھل گیا دن تو ابھر آئے امیدوں کے چراغ
نہ سہی چاند ستارے ہی نظر آتے رہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.