Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

رنگ چور

سارا شگفتہ

رنگ چور

سارا شگفتہ

MORE BYسارا شگفتہ

    لو شام ہو رہی ہے

    اور اس نے ہمارے چہرے چوری کرنے شروع کر دئے ہیں

    تم چھوٹے چور ہو

    میں چھوٹا چور نہیں

    سمندر میں اترا

    تو سمندر نے میرے کپڑوں کا کوئی رنگ نہ چرایا

    ہاں تھوڑے سے میرے سانس ضرور

    اس نے چوری کر لئے تھے

    معلوم ہوتا ہے یہ بھی چور ہے

    تم نے کبھی مٹی میں غوطہ لگایا ہے

    مٹی چوری کرنا بڑا مشکل کام ہے

    اگر میں نے مٹی میں غوطہ لگایا

    تو وہ میرے سارے سانس چوری کر لے گا

    تو پھر یہ بندہ چور چور نہیں رہے گا

    راستے میں تو کئی راہیں رنگی ہوئی ہیں

    اور ان دیکھے نے بعض جگہ

    ایک ہی رنگ رنگا ہوا ہے

    تم غاروں کے رنگ چوری کر سکتے ہو

    سچ پوچھو تو سب سے بڑا رنگ چور سورج ہے

    رنگ تک پہنچتے پہنچتے یہ تمہیں کئی رنگ دکھا جائے گا

    دیکھنا آئینے میں ہماری آنکھیں ایک سی تو نہیں لگ رہیں

    کبھی ہوا کو بھی شیشہ کہتے ہیں

    دیکھ ہوا تیرے کپڑے بھی پکڑ رہی ہے اور میرے بھی

    کہیں یہ بھی تو چور نہیں

    تم چوری کرنے نکلے ہو کہ رنگ ہونے

    دیکھو سمندر جب پتھر کی سطح پر آتا ہے

    تو سفید ہو جاتا ہے

    اور ہوا جب پیڑوں پہ چڑھ

    ناچتی ہے تو ہری ہو جاتی ہے

    آدمی جب روتا ہے

    اپنے آنسوؤں میں ڈوب جاتا ہے

    اس وقت تم آدمی کا کوئی رنگ چوری نہیں کر سکتے

    بتاؤ

    آسمان کا رنگ زمین پہ کیسے اترا

    تمہیں اتنی باریکیاں بتا دوں

    تو خود چوری ہو جاؤں

    چوری کرو پہلے اس پتھر کا رنگ بھی

    اس کو جتنا توڑتا ہوں

    ایک ہی رنگ کی آواز دیتے ہیں یہ پتھر

    اور رنگ چورہ چورہ ہو جاتے ہیں

    پانی بھی اپنا رنگ نہیں نکال رہا

    کہیں یہ بھی روتا ہوا آدمی تو نہیں

    ٹوٹے پھول کی گفتگو بھی خنجر ہو گئی ہے

    جو پھول شام میں توڑے تھے

    انہیں رات کے اندھیروں نے کالا کر دیا ہے

    آہستہ آہستہ چلو

    ہماری آہٹ پا کر کوئی رنگ چھپ نہ جائے

    یہ آگ بجھ نہیں سکتی

    آگ بجھ گئی تو تم چور نہیں رہو گے

    اندھیرے روشنیاں چوری کرتے ہیں

    یہ خود چور ہوتے ہیں

    میں نے چوری نہ کی تو میرا گھر بے انگارہ رہ جائے گا

    میری روٹی کا رنگ سفید پڑ جائے گا

    میری بھوک رنگ رنگ پکارے گی

    مجھے ٹوٹے پھولوں کے پاس لے جائے گی

    اور پھول جانتے ہیں کہ میں چور ہوں

    جب آنکھوں کی کینچلی چوری ہو جاتی ہے

    انسان ایسے ہی رنگ چوریاں کرنے نکل کھڑا ہوتا ہے

    میں نے سمندر کا رنگ چرایا تھا تو فرش بنایا تھا

    آنکھوں کے رنگ چرائے تھے تو دیواریں بنائیں تھیں

    سورج کا رنگ چرایا تھا تو چھاؤں بنائی تھی

    بھوک کا رنگ چرایا تھا تو چولہا بنایا تھا

    چغلی کا رنگ چرایا تھا تو کپڑے سلوائے تھے

    اور جب آگ کا رنگ چوری کیا

    تو میری روٹی کچی رہ گئی

    پتھر خاموش ہو جاتے ہیں

    اور دیے کی لو

    خلا کو پھر سے جلانا شروع کر دیتی ہے

    مأخذ :

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے