رنگون کا مشاعرہ
مجھے رنگون سے جب دعوت شعر و سخن آئی
طبیعت فاصلے اور وقت کے چکر سے گھبرائی
دل برگشتہ کو لیکن یہ میں نے بات سمجھائی
''نہیں کچھ سبحہ و زنار کے پھندے میں گیرائی''
''وفاداری میں شیخ و برہمن کی آزمائش ہے''
وہاں رنگینئ شعر و سخن کی آزمائش ہے
کراچی سے پیا کی گود میں ہندوستاں آیا
نئی دہلی سے کہنے کو پرانی داستاں آیا
جوانی کے لیے یادیں میں سوئے گلستاں آیا
برائے اہل محفل اور بہ یاد رفتگاں آیا
وہ مسکن تھا وہ مدفن ہے بہت سے اہل ایماں کا
''وہ اک گلدستہ ہے ہم بے خودوں کے طاق نسیاں کا''
وہ ایسی سرزمیں ہے جس میں اہل دل ابھی تک ہیں
جو شیخ و برہمن اردو کے ہیں قابل ابھی تک ہیں
نشان میرؔ و غالبؔ، داغؔ اور سائلؔ ابھی تک ہیں
جو شمعیں بچ گئی ہیں رونق محفل ابھی تک ہیں
''نمی گویم دریں گلشن گل و باغ و بہار از من
''بہار از یار و باغ از یار و گل از یار و یار از من''
اڑا دہلی سے اور اڑ کر میں کلکتہ میں آ پہنچا
تھکا ہارا ہوا ساحل پہ جیسے ناخدا پہنچا
میں اپنے سننے والوں کے لیے بن کر صدا پہنچا
چلا اردو کی خاطر از کجا اور تا کجا پہنچا
مری اردو تری الفت میں اب رنگون آیا ہوں
ترے عشاق کی محفل میں کچھ مضمون لایا ہوں
- کتاب : Teer-e-Neem Kash (Pg. 78)
- Author : Sayed Mohammad Jafri
- مطبع : Sang-e-Meel Publications, Lahore (P.k.) (2007)
- اشاعت : 2007
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.