رقاصۂ گیتی
دائروں میں گھری رقص کرتی رہی
اپنے محور پہ رہ کر تھرکتی رہی
دھوپ میں چاندنی میں ہر اک گام پر
کشمکش سے جہاں کے گزرتی رہی
بدلیاں جھوم کر خوب برسیں مگر
مینہ برستا رہا میں جھلستی رہی
نیک و بد کی ترازو اٹھائے ہوئے
اپنے جذبات میں آپ گھٹتی رہی
آسمانوں سے برسی ہوئی آگ سے
پارہ پارہ ہوئی کہ جھلستی رہی
ظلم کے پاسبانوں کے سایہ تلے
زخم کھاتی رہی وار سہتی رہی
کتنے طوفاں مجھے روند کر بڑھ گئے
زلزلوں کی تباہی بھی سہتی رہی
دائروں سے نکلنا تو ممکن نہ تھا
دائروں میں گھری رقص کرتی رہی
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.