رقاصۂ حیات سے
پھولوں پہ رقص اور نہ بہاروں پہ رقص کر
گلزار ہست و بود میں خاروں پہ رقص کر
ہو کر جمود گلشن جنت سے بے نیاز
دوزخ کے بے پناہ شراروں پہ رقص کر
شمع سحر فسون تبسم، حیات گل
فطرت کے ان عجیب نظاروں پہ رقص کر
تنظیم کائنات جنوں کی ہنسی اڑا
اجڑے ہوئے چمن کی بہاروں پہ رقص کر
سہمی ہوئی صدائے دل ناتواں نہ سن
بہکی ہوئی نظر کے اشاروں پر رقص کر
جو مر کے جی رہے تھے تجھے ان سے کیا غرض
تو اپنے عاشقوں کے مزاروں پہ رقص کر
ہر ہر ادا ہو روح کی گہرائیوں میں گم
یوں رنگ و بو کی راہ گزاروں پہ رقص کر
تو اپنی دھن میں مست ہے تجھ کو بتائے کون
تیری زمیں فلک ہے ستاروں پر رقص کر
اس طرح رقص کر کہ سراپا اثر ہو تو
کوئی نظر اٹھائے تو پیش نظر ہو تو
- کتاب : Kulliyat Shakeel (Pg. 327)
- مطبع : Fareed Book Depot Pvt. Ltd.
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.