میں امیدوں کی یہ بجھتی کرنیں لئے
یوں اندھیروں میں کب تک بھٹکتی پھروں
اپنے زخموں پہ پھیلاؤں میں کب تلک
بے صدا خواہشوں کی سلگتی قبا
اور پھر کب تلک
تشنگی کے جو پیوند ہیں جا بجا
اس جہاں کی نظر سے چھپاتی پھروں
کب تلک میں سنوں نغمۂ زندگی
ہر اکھڑتی ہوئی سانس کے ساز پر
کب تلک یوں جمائے رہوں میں قدم
وقت کی اس خطرناک ڈھلوان پر
جس کی پھسلن لئے جا رہی ہے اسے
دور مجھ سے بہت دور جانے کدھر
دن بہ دن اس کی معدوم ہوتی ہوئی
دھندلی دھندلی سی پرچھائیاں دیکھ کر
جی کہے
آتما کا گلا گھونٹ دوں
اور پھر یاس کے تلملاتے ہوئے
اندھے وحشی بگولوں کی یورش بنوں
رقص وحشت کروں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.