رقص
سکوت کھلنے لگا ہے
تنہائی چہچہاتی ہے بام و در پر
میں اپنے آبائی گھر کی پچھلی شکستہ سیڑھی پہ سر جھکائے
گزشتہ صدیوں کو گن رہی ہوں
سفید اور سرخ پتھروں کا مکان اب
موم بن کے مجھ پر ٹپک رہا ہے پگھل رہا ہے
سبھی دئے بجھ چکے ہیں یاں طاق آرزو کے
کتاب رفتہ کے کچھ ورق بس کھلے ہوئے ہیں
کہ جن کا مجھ کو امیں بنایا سفیر شب نے
کچھ اس طرح گردش مہ و سال کی نمی سے
یہ گل رہے ہیں
کہ ان میں اک حرف بھی سلامت نہیں ملے گا
تمام آدرش جل رہے ہیں
اور ان کے شعلوں کی روشنی میں
عجیب منظر ابھر رہا ہے
یہ سرد دالان
اس سے آگے غلام گردش
یہ لق و دق صحن ڈیوڑھیاں اور بڑا احاطہ
مرے جلو میں
یہ کیسی پرچھائیاں سی ہر سمت رقص کرتی گزر رہی ہیں
یہ میرے آبا کے زر خرید اور غلام ہیں سب
ہزاروں روحیں بہ یک زباں چیختی ہوں جیسے
غلام گردش میں
گھنگھروؤں کی یہ کیسی چھم چھم برس رہی ہے
یہ کون سازوں پہ ہاتھ رکھے
لہو کے آنسو حسین پوروں سے رو رہا ہے
کہ جن کی آواز ڈس رہی ہے
اور اس کے پیچھے
وہ دور خلوت میں روح کس کی ترس رہی ہے
یہی وہ عورت ہے
جس کی آنکھوں کو چومنے کی ستارے حسرت کریں تو روئیں
یہ شب کے پردے میں
اپنے خلوت کدے میں کس کو بلا رہی ہے
یہ کس کو آنسو دکھا رہی ہے
بڑے احاطے کے اس کنوئیں میں
یہ نازنینوں کی کیسی چیخیں ہیں
جو مقید ہیں تین نسلوں سے
اور روحیں پھڑک رہی ہیں
یہ کون ڈیوڑھی میں کھانستا ہے
یہ کون بھوکا نحیف بچہ اناج کی کوٹھیوں کے آگے
ابھی ابھی رو کے سو گیا ہے
یہ سر کو نیوڑھائے کون لڑکی
ادھر اندھیرے میں رو رہی ہے
یہ ایک گوشے میں کون بوڑھا
لہو میں تر آستیں چھپائے
تمام روحوں سے منہ چرائے
کماں کی صورت جھکا ہوا ہے
لرز رہا ہے
کہ میرے آبا کی سبز مٹی کا شاخسانہ
پس دریچہ کھلا ہوا ہے
عجب تماشا لگا ہوا ہے
یہی مکاں ہیں
حویلیاں ہیں
عطا و جود و سخا کے مرکز
تشدد و جبر کے ادارے
اب ان میں رقصاں ہیں زر خرید اور غلام سارے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.