ہمیشہ سوچتا ہوں میں
یہ اک نیلی سی چھتری
جو مرے سر پر تنی ہے
اس کے پیچھے
اور کیا ہے
کبھی میں خواب کے سیارچے میں بیٹھ جاتا ہوں
عقیدت گاہ سے مانگی ہوئی عینک لگاتا ہوں
گماں کے اسپ تازی پر کمال برق رفتاری دکھاتا ہوں
خرد کے گنبدوں میں سرگراں
افلاک کی وسعت
ستاروں اور سیاروں کی ٹولی
فصیل دہر میں بنتے بگڑتے
یہ سیہ روزن
میں ان کے پار جانا چاہتا ہوں
مگر اک بار پھر یہ سوچتا ہوں
ابھی تو مجھ کو اپنے پیر کے نیچے کی مٹی کا پتہ معلوم کرنا ہے
میں ساتوں آسماں کی گردشوں سے کیوں پریشاں ہوں
کہ اپنی یہ زمیں بھی تو
اسی اونچے فلک میں ہی معلق گھومتی ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.