رسم
تری پرچھائیں تیرے بعد بھی گھر بھر میں پھرتی ہے
کبھی گلدان میں الجھے ہوئے
پھولوں کی خوشبو کی
صفیں ترتیب دیتی ہے
کبھی سجدے میں سر رکھے
گری بکھری کتابوں کی
جماعت کی جبینوں پر لگی برسوں کی گرد اور دھول
پلکوں کی نمی سے ڈھوتی الماری میں قعدے بانٹی تکبیر دیتی ہے
درود دوستی سے پیشتر
دائیں طرف کے ہاتھ کی انگلی اٹھا کر
اک شہادت اک گواہی
نام کر دیتی ہے چاہت کے
کبھی آئینے میں اپنی پرانی داستاں کی آیتوں کا ورد کرتی ہے
کبھی چوکھٹ پہ آ کے یاد کی تسبیح کرتی ہے
پرو لیتی ہے دانوں میں
کہ ہر دانے پہ تیرا نام پڑھتی ہے
مگر گنتی نہیں کرتی
کہ ہر تینتیس دانوں بعد اک چھلا نہیں آتا
کبھی ان پنج وقتہ کھڑکیوں سے دھوپ کے مینار پر چڑھ کر
یہ حی علی الصلوٰۃ دل کی گونجیں چاک کرتی ہے
فضا نمناک کرتی ہے
نگاہوں کے گھڑے سے پانی چھلکا کر وضو
یا پھر نگاہیں خشک ہو جائیں
تو بیتے وقت کے اک لمس سے تدبیر کی صورت
تیمم سے مری لکھی ہوئی نظمیں تلاوت کرنے لگتی ہے
صبح سے شام ہونے تک
کسی تصویر کو کعبہ بناتی ہے
طواف کرتی جاتی ہے
نہ جانے کون سے کتنے مناسک یاد نے
پرچھائیں کے سر باندھ رکھے ہیں
یہ سارے کشٹ کرتی ہے
پر آخر میں
وہی اک آخری سنت نبھاتی ہے
یہ اپنے آپ کو ہر شام
آنگن میں گرا کر
ہار کو تسلیم کر کے
رسم کے اک کھردرے خنجر سے
بن تکبیر ہی
قربان ہوتی ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.