رسی کا پل
دیکھا بھالا
ہچکولے مانوس
گرہیں جس کی عقدوں سے پر
طول سفر اک عمر
رسی کا پل اک دن ٹوٹا
اور مسافر گرتے گرتے
اس کے دونوں ٹکڑے تھامے
خود پل بن کر بیچ میں لٹکا جھول رہا تھا
سیکڑوں آنکھوں کے جھرمٹ میں
وہ مصلوب تماشہ بن کر
ٹوٹے پل کو جوڑ رہا تھا
اونچائی پر دونوں سروں کی جانب بے رحمی سے کھنچتی
ضدی رسی
تند ہوا کی پیہم آڑی ترچھی کیلیں
گہرائی میں بہتا پانی اور چٹانیں
اور ہوا میں دو بازو شل
اس مٹھی سے اس مٹھی تک حشر بپا تھا
پانی اور ہوا کے شور میں شریانوں کا خون ہو جیسے
اور تناؤ چیخ رہا ہو
اپنی آنکھیں کھول کے دیکھو
رسی بن گئے ہاتھ تمہارے
تم خود اپنا کفارہ ہو
ہیلے لو یاہ، ہیلے لو یاہ
اب جی اٹھو جشن مناؤ
لمبے سفر سے تم کو آج نجات ملی ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.