رسول مصلوب کے دو ہزار برسوں کے بعد یہ واقعہ ہوا
یہ اس زمانے کی بات ہے جب رسول خورشید راس الافلاک پر چمکتا تھا
وہ اک زمستاں کی نیم شب کا سماں تھا
وہ نیم شب اک رقیق چادر نہ جانے کب سے زمیں کے مردار کالبد پر
پڑی ہوئی ہے اور اس کے مسموم روزنوں سے گلے سڑے جسم کا تعفن ابل رہا ہے
شجر حجر دھند کے کفن میں چھپی ہوئی خامشی کے سینے میں چبھ رہے تھے
عناصر وقت منجمد تھے
تمام روحیں فشار مرقد میں مبتلا تھیں
اور ایسے ہنگام میں اک آواز نور افگن
ظہور خورشید کی بشارت سے دشت و در کو جلا رہی تھی
ہزارہا شب گزیدگاں کے ہجوم سے میں نے اس کو دیکھا
وہ خون آدم میں اپنی زندہ خزاں زدہ انگلیاں ڈبوئے کھڑا تھا
ہجوم سے ایک اک گنہ گار کو بلاتا اور اس کے ماتھے پہ کلمۂ صبح لکھ رہا تھا
تمام مردے خزاں زدہ انگلیوں کے چھونے سے جاگتے تھے
گناہ گار نفس تھا میں بھی
امید وار شفا تھا میں بھی
پھر اس زمستاں کی نیم شب میں ہزار لمحات شاق گزرے
اور ایک لمحے نے میرے زخم جگر کو چھو کر کہا
مداوائے غم کی ساعت قریب ہے
سجدہ ریز ہو جا
یہ اس زمانے کی بات ہے جب زمین کے بے شمار مردے لہو کا بپتسمہ لے رہے تھے
لہو کا بپتسمہ لے رہے ہیں
رسول خورشید کی صدا بھی تو مر گئی تھی کہر میں وہ کھو گیا اور
اسی زمستاں کی نیم شب میں خبر ملی ہے
اسی شبستاں نور و نکہت میں بے کفن لاش پر وہ بیٹھا ہوا ہے
اپنے خزاں زدہ ہاتھ سے کسی کے لہو کی تقطیر کر رہا ہے
اور اپنے کاسے کو بھر رہا ہے
خبر ملی ہے،
لہو وہ خورشید کا لہو ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.