روشنی کا چراغ
کتنے پروانے جان دینے کو
گر رہے ہیں خموش شمعوں پر
سرد راتوں میں ضبط گریہ سے
اشک آ آ گئے ہیں پلکوں پر
اجڑا اجڑا سا یہ جو کمرہ ہے
کوئی کرسی نہ کوئی میز یہاں
کاپیاں پرچے اور کتابیں سب
ان کو دیمک سے میں بچاؤں کہاں
ایک سال اور رہ گیا ہے اب
ختم ہو جائے گی مری تعلیم
خاک جب در بدر کی چھانوں گا
کر سکوں گا نہ زیست کی تعظیم
بھائی بہنوں کو خرچ دینا ہے
ان سے وعدہ بھی کر نہیں سکتا
آدمیت کا پاس ہے ورنہ
زہر کھا کر میں آج سو رہتا
آج پھر دق نے میری باجی کو
جا کے پردیس میں دبوچ لیا
کل جو پنڈی سے اس کا خط آیا
میرا سینہ کسی نے نوچ لیا
بٹ گیا ملک ہو گئے تقسیم
ہم نفس اور محبتوں کے امین
کیا اسی فصل گل کا سودا تھا
خاک اور خوں اگل رہی ہیں رتیں
ایک دل تھا جو ہات سے کوئی
لے اڑا اک نگاہ کے بدلے
واہ وا ہو گئی جہاں بھر میں
کیا ملا مجھ کو آہ کے بدلے
دکھ کے احساس کے تلے دب کر
ٹوٹ جائے نہ آج میری لے
کیوں نہ ہر غم کو راز دان کروں
میرا فن ہی تو میری دنیا ہے
فن سے گویا پناہ ملتی ہے
ورنہ غم کا ابھی علاج کہاں
جس سے دل باغ باغ ہو جائے
اس محبت کا ہے رواج کہاں
کتنی ویران رات ہے لیکن
پھیلتی جا رہی ہے بوئے وفا
پھر کوئی سوچتا ہے ظلمت میں
روشنی کا چراغ گل نہ ہوا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.