روشنی کا منارہ
دلچسپ معلومات
نذر سید حامد علی گڑھ اگست 1986
یک و تنہا
حوادث کی ہوائیں سرسراتی ہیں
کوئی فانوس
آندھی آئی
شمعیں بجھتی جاتی ہیں
حوادث کی ہوا سے شمع بچتی ہے نہ پروانے
تو پھر یہ ایک مشعل کیسے روشن ہے
خدا جانے
سحر دم سامنے رہتی ہے
وقت شام جلتی ہے
کلیجہ کھولتا ہے
روشنی اس سے نکلتی ہے
ابلتے دل کی گرمی گاہ آ جاتی ہے ہونٹوں پر
بدن جس سے جھلس جاتے ہیں
دریاؤں کے ساحل پر
شفق کے رنگ بڑھ جاتے ہیں
کتنے شوخ ہوتے ہیں
فضا میں ذرے ٹکراتے ہیں
تارے ٹوٹ جاتے ہیں
خلاؤں میں فرشتے دوڑنے لگتے ہیں
پیغمبر مناظر کے
شگوفے پھوٹتے ہیں
دے کے اپنا سر
گرجتے میگھ کے ہاتھی ہیں
رن میں
ہن برستا ہے
برہنہ جسم
جو تپتا تھا
یوں سیراب ہوتا ہے
اٹھو اے آندھیو
کالی گھٹائیں ساتھ میں لاؤ
فضا مدت سے گرد آلود ہے
کچھ مینہ برساؤ
زمانہ کے سمندر میں
بہت سی سیپیاں
منہ کھولے تکتی ہیں
ہماری نازنینوں کے گلے
گھٹنے لگے مصنوعی ہاروں سے
گھرے ہیں آج بھی گھنگھور بادل
آندھیاں بھی آتی جاتی ہیں
گرج ہے
گھن ہے
ڈر ہے
جھوٹ ہے
سچ سہما جاتا ہے
مگر ہے روشنی پھر بھی
اگر کم کم ہے
پیہم ہے
ہماری بستیوں میں جو نہیں ہے
اپنا دم خم ہے
بتاؤ ہم
منارے کیوں نہیں بنتے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.