روشنی کی سوغات
میں الفاظ کا تحفہ کاغذ میں لپیٹ کر لایا تھا کہ تمہیں نذر کروں گا
وہ راستے ہی میں بکھر گیا
اس میں میرا قصور نہیں
یہ تو ہوا کی شرارت تھی
میں جو کچھ کہنا چاہتا ہوں اسے کاغذ پر روشنائی بنا کر بکھیر دیتا ہوں
میرے خیالات کاغذی ہیں
میرے الفاظ کاغذی ہیں
میرا وجود کاغذی ہے
میں نے کل شام چائے کی چسکی لیتے ہوئے سوچا تھا
کہ تم اگر میرے کاغذی گھر کو جلا دو تو کیا ہی اچھا ہو
لیکن تمہاری آنکھیں تو یہ کہتی ہیں
کہ وہ اپنی روشنی سے میرے دیوار و در سجائیں گی
میری راتوں کو جگمگائیں گی
میری نیندوں پر خواب بن کر چھا جائیں گی
لیکن مجھے اس پر یقین نہیں آتا
کیونکہ ابھی تک تم نے اپنی آنکھوں کی خواہش کو
الفاظ کا جامہ نہیں پہنایا
میں تو جو کچھ بھی کہنا چاہتا ہوں کاغذ پر بکھیر دیتا ہوں
تمہارے جسم میں ہوا سنسناتی ہے
اور تم ہوا کی طرح نرم و نازک ہو
میرے جسم میں بھی ہوا سنسناتی ہے
لیکن وہ میری طرح بیمار اور کمزور نہیں
ہوا مجھ سے اکثر میرے تحفے چھین لیتی ہے
میں کل پھر الفاظ کا تحفہ کاغذ میں لپیٹ کر لاؤں گا
لیکن مجھے یقین ہے
کہ ہوا یہ تحفہ راستے ہی میں چھین لے گی
ہوا ہماری دشمن نہیں
یہ تو ہم دونوں کا سہارا ہے
یہ تمہیں زندگی دیتی ہے
اور مجھے زندہ رہنے کی حسرت
یہ اپنے دامن میں نہ جانے کتنی چیزیں چھپائے ہوئے ہے
میرے اور تمہارے خاندان کی ناموس
میری اور تمہاری باتوں کی افواہیں
جب ہوا بہت ہی اداس ہو تو تم میرے پاس آنا
میں تمہاری بڑی بڑی آنکھوں میں
اپنی روح کی روشنی بھر دوں گا
لیکن اس وقت تک میں بوڑھا ہو چکا ہوں گا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.