ہم محبت کے خرابوں کے مکیں
وقت کے طول المناک کے پروردہ ہیں
ایک تاریک ازل نور ابد سے خالی
ہم جو صدیوں سے چلے ہیں تو سمجھتے ہیں کہ ساحل پایا
اپنی تہذیب کی پاکوبی کا حاصل پایا
ہم محبت کے نہاں خانوں میں بسنے والے
اپنی پامالی کے افسانوں پہ ہنسنے والے
ہم سمجھتے ہیں نشان سر منزل پایا
ہم محبت کے کے خرابوں کے مکیں
کنج ماضی میں ہیں باراں زدہ طائر کی طرح آسودہ
اور کبھی فتنۂ ناگاہ سے ڈر کر چونکیں
تو رہیں سد نگاہ نیند کے بھاری پردے
ہم محبت کے خرابوں کے مکیں!
ایسے تاریک خرابے کہ جہاں
دور سے تیز پلٹ جائیں ضیا کے آہو
ایک بس ایک صدا گونجتی ہو
شب آلام کی ''یاہو! یاہو''
ہم محبت کے خرابوں کے مکیں
ریگ دیروز میں خوابوں کے شجر بوتے رہے
سایہ ناپید تھا سائے کی تمنا کے تلے سوتے رہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.