ریگستان میں جھیل
سنا کرتے تھے اب تک
ریگزاروں میں کہیں بھی دور تک
پانی نہیں ملتا
مگر اک بار جب ہم
ریت کے جلتے ہوئے ذروں پہ ننگے پاؤں چل کر
لہو برساتے سورج سے نگاہیں چار کرتے
پاؤں میں چھالے سجائے
پانی کے چند ایک قطرے ڈھونڈتے
قدم آگے بڑھائے جا رہے تھے
لہو کی تیز بڑھتی گردشیں
مدھم سے مدھم تر ہی ہوتی جا رہی تھیں
زندگی معدوم ہوتی جا رہی تھیں
اچانک حیرتوں میں ڈوب کر ہم نے یہ دیکھا
اک بڑی جادو بھری سی جھیل ہے
جس میں کہ تا حد نظر
قوس و قزح کے رنگ بکھرے ہیں
ابھرتی ڈوبتی لہریں
بڑا جادو جگاتی رقص کرتی
ناچتی لہریں
سمندر سبز لہریں نیلگوں لہریں
سفید اور چمپئی لہریں
اور ان کے بھی سوا
بڑی ہی سیاہ گہری سرمگیں لہریں
جھیل کی لہروں کا جادو
روح کو سرشار سا کرتا رہا
زیست کے غم کا مداوا بن گیا
کنارے بیٹھ کر
اس جھیل کے پانی میں ہم نے دیر تک جھانکا
خود اپنے آپ سے ملتے رہے
خود اپنے آپ کو پہچاننے کی کوشش کرتے رہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.