دمکتے چہرے گھنیری زلفیں
یہ سرسراتے ہواؤں جیسے لباس جسموں کا بانکپن دل ربا ادائیں
یہ جھلملاتے مکان رنگین شہر چمکیلی کاریں
یہ سب مناظر جو راحتوں کے سراب دکھلا کے
خواہشوں کے لطیف پیکر تراش کر خواب بیچتے ہیں
بہت حسیں ہیں
یہ کیا ہوا بس پلک جھپکتے ہی سارے منظر بدل گئے ہیں
یہ خوں میں ڈوبے ہوئے مناظر کہاں سے آئے
یہ ماں کہاں کی ہے کون ہے اپنے بیٹے کی لاش پر سر پٹک رہی ہے
نیا دھماکہ کہاں ہوا ہے
یہ کون ہیں کیا شہید ہیں جن کے جسموں سے بم بندھے ہیں
جو ان دھماکوں میں جاں بحق سیکڑوں ہوئے ہیں
شہید وہ ہیں
یہ کون سا شہر کیا جگہ ہے
جہاں پہ سیلاب نے پھر سے قہر ڈھایا
یہ زلزلہ پھر کہاں پہ آیا
فساد پھر ہو گیا کہیں پر
یہ کیا جگہ ہے
یہ کون معصوم بچیوں کے بریدہ جسموں کو ڈھونڈھتا ہے
یہ بربریت کے سنسنی خیز منظر
بہت ہی تفصیل سے چل رہے ہیں
کہاں کہاں سے تلاش کر کے دکھا رہے ہیں
مجھے پتہ ہے
یہ عالمی گاؤں کا ہے منظر
ارے خدا کے لئے بدل دو
ریموٹ لاؤ بٹن دباؤ
یہ ٹھیک ہے ہاں یہ ہی لگا لو
سجی بنی عورتوں کے قصے جو اپنے جنت نما مکانوں میں
جال سازش کے بن رہی ہیں
یہ بے وفائی کے رنجشوں کے
جو سلسلے ہیں
چلو پھر ان میں ہی سر کھپائیں
یہ بھول جائیں کہ ساری دنیا میں وحشتوں کا ہے رقص جاری
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.