رینگے لمحوں کا خوف
میں ایٹم بم کے ڈھیر پہ بیٹھا سوچ رہا تھا
یہ روشنیوں اور رنگوں کا سیلاب رواں
یہ ریشم کے لچھوں ایسا نرم بدن
یہ برف کے گالے سے اس ننھے سیب کی نیند
یہ اس کی فرشتوں جیسی معصومانہ ہنسی
یہ گندم کے دانوں سے ننھے ننھے دانت
یہ کلیوں کی مانند تر و تازہ رخسار
یہ گیسوں کی خوشبو سے ناواقف ناک
یہ سگریٹ کے دھوئیں سے بیگانہ دہن
یہ میرے اپنے دل سی کشادہ پیشانی
یہ صبح کی پہلی کرنوں جیسے اس کے بال
یہ سب کچھ اس کا اپنا ہے لیکن پھر بھی
یہ سب کچھ آخر کب تک اس کا اپنا ہے
یہ میرا اپنا خون ہے میرے ہاتھوں میں
یا میری سہمی سہمی بے خواب آنکھوں میں
یہ مستقبل کا کوئی بھیانک سپنا ہے
میں خود اپنی ہی سوچوں کے پر نوچ رہا تھا
میں ایٹم بم کے ڈھیر پہ بیٹھا سوچ رہا تھا
- کتاب : Nuquush (Pg. 482)
- مطبع : Idara-e-Frog-e-Urdu, Lahore (1985, Issue No. 132 )
- اشاعت : 1985, Issue No. 132
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.