ریستوراں
ریستوراں میں سجے ہوئے ہیں کیسے کیسے چہرے
قبروں کے کتبوں پر جیسے مسلے مسلے سہرے
اک صاحب جو سوچ رہے ہیں پچھلے ایک پہر سے
یوں لگتے ہیں جیسے بچہ روٹھ آیا ہو گھر سے
کافی کی پیالی کو لبوں تک لائیں تو کیسے لائیں
بیرے تک سے آنکھ ملا کر بات جو نہ کر پائیں
کتنی سنجیدہ بیٹھی ہے یہ احباب کی ٹولی
کتنے اوج بلاغت پر ہے خاموشی کی بولی
ساری قوت چوس چکی دن بھر کی شہر نوردی
ماتھوں میں سے جھانک رہی ہے مرتی دھوپ کی زردی
لمبی لمبی پلکیں جھپکے اک شرمیلی بی بی
بالوں کی ترتیب سے جھلکے ذہن کی بے ترتیبی
شوہر کو دیکھے تو لجائے لاج کو اوٹ بنائے
ہر آنے والے پر اک بھرپور نظر دوڑائے
اک لڑکی اور تین جوان آئے ہیں کسے کسائے
سانولے روپ کو گورے ملکوں کا بہروپ بنائے
باتوں میں نخوت باغوں کی وحشت صحراؤں کی
آنکھوں کے چولہوں میں بھری ہے راکھ تمناؤں کی
اپنی اپنی الجھن سب کی اپنی اپنی رائے
سب نے آنسو روک رکھے ہیں کون کسے بہلائے
ہر شے پر شک ہو تو جینا ایک سزا بن جائے
محور ہی موجود نہ ہو تو گردش کس کام آئے
قہقہے جیسے خالی برتن لڑھک لڑھک کر ٹوٹیں
بحثیں جیسے ہونٹوں میں سے خون کے چھینٹے چھوٹیں
حسن کا ذکر کریں یوں جیسے آندھی پھول کھلائے
فن کی بات کریں یوں جیسے بنیا شعر سنائے
سکڑی سمٹی روحیں لیکن جسم ہیں دوہرے تہرے
ریستوراں میں سجے ہوئے ہیں کیسے کیسے چہرے
- کتاب : Nai Nazm ka safar (Pg. 91)
- Author : Khalilur Rahman Azmi
- مطبع : NCPUL, New Delhi (2011)
- اشاعت : 2011
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.