ریزۂ وجود
مرے وجود کا مکان
خار دار تار کا حصار جس کے ارد گرد
آدمی کا خون پینے والی زرد جھاڑیوں کے خار دار ہات ہیں
مری زمیں کے ارد گرد
کہکشاں کے خار دار دائروں کا رقص ہے
زمیں سے آسمان تک
وجود اپنے ان گنت حواس کا گناہ ہے
شعور و لمس و لذت و مقام کے سراب ہیں
میں پوچھتا ہوں سنگ میں گداز پنبہ ڈھونڈنے سے کیا ملا
یہ زندگی یہی تو ہے
کہ ریزہ ریزہ جمع کی ہوئی متاع زیست کو
ہوائے تند پھینک آئے دشت بے سواد میں
مری نظر کے سامنے
نہ جانے کتنے جسم تھے کہ ٹوٹ کر بکھر گئے
میں ایسے ہولناک تجربوں کے بعد بار بار
خود کو یوں سنبھالتا ہوں جیسے اپنے ہات سے
میں گر کے ٹوٹ جاؤں گا
مرا بدن اذیتوں کا خوان ہے
کبھی میں برف کی سلوں کی ہوں غذا
کبھی میں تیرگی کا رزق ہوں
کبھی مرے لئے ہے نوک دار خنجروں کا تخت خواب
اور آج ان اذیتوں کے درمیاں
مرا وجود جیسے مجھ کو چھوڑ کر چلا گیا
میں برگ سبز تھا جسے
خزاں کا ہات شاخ تر سے توڑ کر چلا گیا
میں ایک سمت فلسفے کے ان گنت نکات کی پناہ ہوں
اور ایک سمت آگہی کے جبر کی کراہ ہوں
مسابقت کے دور میں وہ ساعتیں بھی آ گئیں
کہ حسن اور عشق میں متاع اور مشتری کا رمز جاگنے لگا
نہ عشق اتنا بے خبر
نہ حسن اتنا معتبر
کہ بے دلیل قضیۂ وفا کی داد دے سکے
یہ کائنات بے حسی کی اک بسیط شکل ہے
نہ زندگی کا کچھ اثر
نہ موت سے کوئی خطر
اب ایسی کائنات میں
اس ایک ریزۂ وجود کے حواس کیا کریں
اب ایسے سرد جسم کی برہنگی کو دیکھ کر
خلوص و مہر و لطف کے حسیں لباس کیا کریں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.