رشتۂ دوستی
یوم الست کی بات ہے
اقرار سبھی جب کر چکے تھے
عہد بھی پکے ہو چکے تھے
پھر انہی توحید لمحوں میں
روح میری نے
سہمے سہمے جھجھکتے لہجے
یہ جھک کے اپنے کریم رب سے
کہا کہ مالک نواز مجھ کو
طویل تاریک کٹھن سفر میں
حیات جس کا ہے نام رکھا
اک ایسا انمول پیارا رشتہ
دوستی ہے نام جس کا
یہ سن کے ہر سو سکوت تھا چھایا
جمود طاری تھا ہر ایک شے پر
حیراں ملائک یہ سوچتے تھے
یہ روح سزا کی ہے مستحق اب
رحیم رب کو جو پیار آیا
تو میری جانب
اک رحمتوں کا حصار آیا
یہ فرمان ملائک کو ہوا یکایک
وفا کی مٹی کو گوندھ رکھو
پھر ملاؤ چاہت کا عود و عنبر
بے ریائی انڈیلو اس میں
کرو بے لوث وفاؤں کا عرق شامل
یک جان ہوں جب سبھی یہ اجزا
تو ہر روح انساں میں کر دو شامل
یہ بنیاد تھی رشتۂ دوستی کی
رشتوں کے اس ہجوم میں مونا
میری خوش نصیبی کہ کریم رب نے
دوستی کے کتنے مہرباں ستارے
میرے آسمان زندگی پہ ضو فشاں کئے ہیں
تو اے مہر و وفا کی مٹی میں گندھے میرے دوستو
یہ نظم میری تمہارے نام
کہ محبتوں نے تمہاری مجھے مالا مال کیا
اور اس دوستی نے
میری ہستی کو بے مثال کیا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.