رشوت
لوگ ہم سے روز کہتے ہیں یہ عادت چھوڑیئے
یہ تجارت ہے خلاف آدمیت چھوڑیئے
اس سے بد تر لت نہیں ہے کوئی یہ لت چھوڑیئے
روز اخباروں میں چھپتا ہے کہ رشوت چھوڑیئے
بھول کر بھی جو کوئی لیتا ہے رشوت چور ہے
آج قومی پاگلوں میں رات دن یہ شور ہے
کس کو سمجھائیں اسے کھودیں تو پھر پائیں گے کیا
ہم اگر رشوت نہیں لیں گے تو پھر کھائیں گے کیا
قید بھی کر دیں تو ہم کو راہ پر لائیں گے کیا
یہ جنون عشق کے انداز چھٹ جائیں گے کیا
ملک بھر کو قید کر دے کس کے بس کی بات ہے
خیر سے سب ہیں کوئی دو چار دس کی بات ہے
یہ ہوس یہ چور بازاری یہ مہنگائی یہ بھاؤ
رائی کی قیمت ہو جب پربت تو کیوں نہ آئے تاؤ
اپنی تنخواہوں کے نالے میں ہے پانی آدھ پاؤ
اور لاکھوں ٹن کی بھاری اپنے جیون کی ہے ناؤ
جب تلک رشوت نہ لیں ہم دال گل سکتی نہیں
ناؤ تنخواہوں کے پانی میں تو چل سکتی نہیں
رشوتوں کی زندگی ہے چور بازاری کے ساتھ
چل رہی ہے بے زری احکام زرداری کے ساتھ
پھرتیاں چوہوں کی ہیں بلی کی طراری کے ساتھ
آپ روکیں خواہ کتنی ہی ستم گاری کے ساتھ
ہم نہیں ہلنے کے سن لیجے کسی بھونچال سے
کام یہ چلتا رہے گا آپ کے اقبال سے
یہ ہے مل والا وہ بنیا ہے یہ ساہوکار ہے
یہ ہے دوکاں دار وہ ہے وید یہ عطار ہے
وہ اگر ٹھگ ہے تو یہ ڈاکو ہے وہ بٹ مار ہے
آج ہر گردن میں کالی جیت کا اک ہار ہے
حیف ملک و قوم کی خدمت گزاری کے لیے
رہ گئے ہیں اک ہمیں ایمان داری کے لیے
بھوک کے قانون میں ایمان داری جرم ہے
اور بے ایمانیوں پر شرمساری جرم ہے
ڈاکوؤں کے دور میں پرہیزگاری جرم ہے
جب حکومت خام ہو تو پختہ کاری جرم ہے
لوگ اٹکاتے ہیں کیوں روڑے ہمارے کام میں
جس کو دیکھو خیر سے ننگا ہے وہ حمام میں
توند والوں کی تو ہو آئینہ داری واہ وا
اور ہم بھوکوں کے سر پر چاند ماری واہ وا
ان کی خاطر صبح ہوتے ہی نہاری واہ وا
اور ہم چاٹا کریں ایمان داری واہ وا
سیٹھ جی تو خوب موٹر میں ہوا کھاتے پھریں
اور ہم سب جوتیاں گلیوں میں چٹخاتے پھریں
خوب حق کے آستاں پر اور جھکے اپنی جبیں
جائیے رہنے بھی دیجے ناصح گردوں نشیں
توبہ توبہ ہم بھڑی میں آ کے اور دیکھیں زمیں
آنکھ کے اندھے نہیں ہیں گانٹھ کے پورے نہیں
ہم پھٹک سکتے نہیں پرہیزگاری کے قریب
عقل مند آتے نہیں ایمان داری کے قریب
اس گرانی میں بھلا کیا غنچۂ ایماں کھلے
جو کے دانے سخت ہیں تانبے کے سکے پل پلے
جائیں کپڑے کے لیے تو دام سن کر دل ہلے
جب گریباں تا بہ دامن آئے تو کپڑا ملے
جان بھی دے دے تو سستے دام مل سکتا نہیں
آدمیت کا کفن ہے دوستوں کپڑا نہیں
صرف اک پتلون سلوانا قیامت ہو گیا
وہ سلائی لی میاں درزی نے ننگا کر دیا
آپ کو معلوم بھی ہے چل رہی ہے کیا ہوا
صرف اک ٹائی کی قیمت گھونٹ دیتی ہے گلا
ہلکی ٹوپی سر پہ رکھتے ہیں تو چکراتا ہے سر
اور جوتے کی طرف بڑھیے تو جھک جاتا ہے سر
تھی بزرگوں کی جو بنیائن وہ بنیا لے گیا
گھر میں جو گاڑھی کمائی تھی وہ گاڑھا لے گیا
جسم کی ایک ایک بوٹی گوشت والا لے گیا
تن میں باقی تھی جو چربی گھی کا پیالہ لے گیا
آئی تب رشوت کی چڑیا پنکھ اپنے کھول کر
ورنہ مر جاتے میاں کتے کی بولی بول کر
پتھروں کو توڑتے ہیں آدمی کے استخواں
سنگ باری ہو تو بن جاتی ہے ہمت سائباں
پیٹ میں لیتی ہے لیکن بھوک جب انگڑائیاں
اور تو اور اپنے بچے کو چبا جاتی ہے ماں
کیا بتائیں بازیاں ہیں کس قدر ہارے ہوئے
رشوتیں پھر کیوں نہ لیں ہم بھوک کے مارے ہوئے
آپ ہیں فضل خدائے پاک سے کرسی نشیں
انتظام سلطنت ہے آپ کے زیر نگیں
آسماں ہے آپ کا خادم تو لونڈی ہے زمیں
آپ خود رشوت کے ذمے دار ہیں فدوی نہیں
بخشتے ہیں آپ دریا کشتیاں کھیتے ہیں ہم
آپ دیتے ہیں مواقع رشوتیں لیتے ہیں ہم
ٹھیک تو کرتے نہیں بنیاد نا ہموار کو
دے رہے ہیں گالیاں گرتی ہوئی دیوار کو
سچ بتاؤں زیب یہ دیتا نہیں سرکار کو
پالئے بیماریوں کو ماریے بیمار کو
علت رشوت کو اس دنیا سے رخصت کیجیے
ورنہ رشوت کی دھڑلے سے اجازت دیجئے
بد بہت بد شکل ہیں لیکن بدی ہے نازنیں
جڑ کو بوسے دے رہے ہیں پیڑ سے چیں بر جبیں
آپ گو پانی الچتے ہیں بہ طرز دل نشیں
ناؤ کا سوراخ لیکن بند فرماتے نہیں
کوڑھیوں پر آستیں کب سے چڑھائے ہیں حضور
کوڑھ کو لیکن کلیجے سے لگائے ہیں حضور
دست کاری کے افق پر ابر بن کر چھائیے
جہل کے ٹھنڈے لہو کو علم سے گرمائیے
کارخانے کیجیے قائم مشینیں لائیے
ان زمینوں کو جو محو خواب ہیں چونکایئے
خواہ کچھ بھی ہو منڈھے یہ بیل چڑھ سکتی نہیں
ملک میں جب تک کہ پیدا وار بڑھ سکتی نہیں
دل میں جتنا آئے لوٹیں قوم کو شاہ و وزیر
کھینچ لے خنجر کوئی جوڑے کوئی چلے میں تیر
بے دھڑک پی کر غریبوں کا لہو اکڑیں امیر
دیوتا بن کر رہیں تو یہ غلامان حقیر
دوستوں کی گالیاں ہر آن سہنے دیجئے
خانہ زادوں کو یونہی شیطان رہنے دیجئے
دام اک چھوٹے سے کوزے کے ہیں سو جام بلور
مول لینے جائیں اک قطرہ تو دیں نہر و قصور
اک دیا جو بیچتا ہے مانگتا ہے شمع طور
اک ذرا سے سنگ ریزے کی ہے قیمت کوہ نور
جب یہ عالم ہے تو ہم رشوت سے کیا توبہ کریں
توبہ رشوت کیسی ہم چندہ نہ لیں تو کیا کریں
زلف اس کوآپریٹیو سلسلے کی ہے دراز
چھیڑتے ہیں ہم کبھی تو وہ کبھی رشوت کا ساز
گاہ ہم بنتے ہیں قمری گاہ وہ بنتے ہیں باز
آپ کو معلوم کیا آپس کا یہ راز و نیاز
ناؤ ہم اپنی کھواتے بھی ہیں اور کھیتے بھی ہیں
رشوتوں کے لینے والے رشوتیں دیتے بھی ہیں
بادشاہی تخت پر ہے آج ہر شے جلوہ گر
پھر رہے ہیں ٹھوکریں کھاتے زر و لعل و گہر
خاص چیزیں قیمتیں ان کی تو ہیں افلاک پر
آب خورہ منہ پھلاتا ہے اٹھنی دیکھ کر
چودہ آنے سیر کی آواز سن کر آج کل
لال ہو جاتا ہے غصے سے ٹماٹر آج کل
نسترن میں ناز باقی ہے نہ گل میں رنگ و بو
اب تو ہے صحن چمن میں خار و خس کی آبرو
خوردنی چیزوں کے چہروں سے ٹپکتا ہے لہو
روپئے کا رنگ فق ہے اشرفی ہے زرد رو
حال کے سکے کو ماضی کا جو سکہ دیکھ لے
سو روپے کے نوٹ کے منہ پر دو انی تھوک دے
وقت سے پہلے ہی آئی ہے قیامت دیکھیے
منہ کو ڈھانپے رو رہی ہے آدمیت دیکھیے
دور جا کر کس لیے تصویر عبرت دیکھیے
اپنے قبلہ جوشؔ صاحب ہی کی حالت دیکھیے
اتنی گمبھیری پہ بھی مر مر کے جیتے ہیں جناب
سو جتن کرتے ہیں تو اک گھونٹ پیتے ہیں جناب
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.