روایات کی تخلیق
میرے نغمے تو روایات کے پابند نہیں
تو نے شاید یہی سمجھا تھا ندیم
تو نے سمجھا تھا کہ شبنم کی خنک تابی سے
میں ترا رنگ محل اور سجا ہی دوں گا
تو نے سمجھا تھا کہ پیپل کے گھنے سائے میں
اپنے کالج کے ہی رومان سناؤں گا تجھے
ایک رنگین سی تتلی کے پروں کے قصے
کچھ سحر کار نگاہوں کے بیاں
کچھ جواں سال اداؤں کے نشاں
کچھ کروں گا لب و رخسار کی باتیں تجھ سے
تو نے شاید یہی سمجھا تھا ندیم
تو نے یہ کیوں نہیں سمجھا کہ مرے افسانے
طنز بن کر تری سانسوں سے الجھ جائیں گے
زندگی چاند کی ٹھنڈک ہی نہیں
زندگی گرم مشینوں کا دھواں بھی ہے ندیم
اس دھوئیں میں مجھے زنجیر نظر آتی ہے
مجھ کو خود تیری ہی تصویر نظر آتی ہے
غور سے دیکھ ذرا دیکھ تو لے
تجھ کو ڈر ہے تری تہذیب نہ جل جائے کہیں
مجھ کو ڈر ہے یہ روایات نہ جل جائیں کہیں
پھر اک دن اسی خاکستر سے
اک نئے عہد کی تعمیر تو ہو جائے گی
ایک انسان نیا ابھرے گا
صبح اور شام کی ملتی ہوئی سرحد کے قریب
اپنے چہرے پہ شفق زار کی سرخی لے کر
ایک انسان نیا ابھرے گا
میرے نغمے تو روایات کے پابند نہیں
میں روایات کی تخلیق کیا کرتا ہوں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.