روایت شکن
فیض لے کر میرؔ سے آیا ہوا
دیکھیے اک شخص اترایا ہوا
ہر سخنور سے یہی کہتا ہے اب
مستند ہے میرا فرمایا ہوا
مانتا ہوں یہ بجا ہے ٹھیک ہے
اس نے جو جتنا کہا ہے ٹھیک ہے
یہ نیا اسلوب لائے کس طرح
شعر میں جدت دکھائے کس طرح
اس کا ہر اک لفظ ہے مانگا ہوا
یعنی اب تک جو کہا ہے بھیک ہے
اس پہ کھلتے ہی نہیں غم بعد کے
عہد و عصر خانماں برباد کے
میرؔ و غالبؔ کا زمانہ اور ہے
عہد حاضر کا فسانہ اور ہے
اس کو کیا معلوم کیا سے کیا ہوئے
ہائے کتنے حشر ہیں برپا ہوئے
اس کو کیا معلوم غربت کی گھڑی
خواب سارے ایک پل میں مر گئے
اس کو کیا معلوم چھن جانے کا غم
جان سے پیارے بھی اپنے نہ رہے
اس کو کیا معلوم ہے اقصیٰ کا دکھ
جب نہتوں پر بھی میزائل چلے
اس کو کیا معلوم کہ کشمیر میں
کس طرح سے ماؤں کے بیٹے کٹے
اس کو کیا معلوم سونامی کا دن
شہر پل میں ڈوب کر میداں بنے
اس کو کیا معلوم نو گیارہ کے بعد
کس طرح کے ظلم تھے ڈھائے گئے
اس کو کیا معلوم بم کے زور پر
جرم مظلوموں سے منوائے گئے
اس کو کیا معلوم کاروبار ہے
جنگ کا میدان بکتے اسلحے
ہم سنائیں گر حروف آگہی
بھول جائے ہر دلیل شاعری
انگلیاں کانوں میں دے کر زور سے
چیخ مارے اور مر جائے ابھی
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.