روح اذیت خوردہ
زخموں کے انبار، در و دیوار بھی
سونے لگتے ہیں
خوشیوں کے دریا میں اتنی چوٹ لگی
کہ اب اس میں چلتے رہنا دشوار ہوا
سڑکوں پر چلتے پھرتے شاداب سے چہرے سوکھ گئے
وہ موسم جس کو آنا تھا، وہ آ بھی گیا
اور چھا بھی گیا
اشجار کے نیلے گوشوں سے اب زہر سا رستا رہتا ہے
گل زار خزاں کے شعلوں میں ہر لمحہ سلگتا رہتا ہے
اس خواب پریشاں میں کب تک
اس روح اذیت خوردہ کو تم قید رکھو گے
چھوڑ بھی دو!
اس روح اذیت خوردہ کو
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.