سادگی
میرے ماضی کا کوئی زخم مرے پاس نہیں
جس سے جو چیز ملی تھی اسے پھیر آیا ہوں
تیری زلفوں کے ستارے تری آغوش کے پھول
جانے کن راہ گزاروں میں بکھیر آیا ہوں
ہو گئی ہوگی بلند اور بلند اور بلند
میں ترے گرد جو دیوار سی گھیر آیا ہوں
تو مری راہ سے گزری تھی ستارے لے کر
میرے احساس پہ چھائے ہوئے سائے نہ گئے
تیری آنکھوں سے تو برسی تھی مئے ہوش ربا
خشک ہونٹوں سے یہ پیمانے لگائے نہ گئے
تیری پھیلی ہوئی بانہوں نے پکارا لیکن
دو قدم مجھ سے تری سمت اٹھائے نہ گئے
میں نے الفاظ کے پردے میں محبت ڈھونڈی
ارتعاش لب گل گوں کی صدا سن نہ سکا
میں نہ سمجھا تری خاموش نظر کا مفہوم
آنکھوں آنکھوں میں وہ اقرار وفا سن نہ سکا
میں نے انداز تمنا کو تغافل جانا
تیری بھیگی ہوئی پلکوں کا گلہ سن نہ سکا
آج جب زخم تمنا کا نشاں تک نہ رہا
تو مجھے زخم تمنا کی دوا یاد آئی
خاک اڑنے لگی جب روح کے ویرانے میں
تیری بکھری ہوئی زلفوں کی گھٹا یاد آئی
آج جب سوکھ گئے پھول ہی ارمانوں کے
تیرے مہکے ہوئے آنچل کی ہوا یاد آئی
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.