سال نو
آؤ ہم جشن منائیں کہ یہ دھرتی اپنی
یہ جہاں دیدہ معمر دھرتی
اس کی زلفوں کی سیاہی میں بڑھا
ایک اور تار سفید
جھریاں چہرے کی حیرانی نگاہوں میں سموئے دیکھیں
تیزرو قدموں سے بڑھتی ہوئی اک اور شکن
جیسے بچھڑی ہو کسی میلے میں
دل کی شریانوں میں سرخی کی جگہ زردی ہے
روشنی رنگ کے طوفان میں فرصت کس کو
کوئی پوچھے اس سے
دل کی رفتار ہوئی جاتی ہے دھیمی کیوں کر
اس کے سینے میں ہیں مدفون دکھوں کے انبار
اپنی ہی کوکھ سے جنمے ان زمیں زادوں کے
قہقہے کھوکھلے سن سن کے پھٹا جاتا ہے دل دھرتی کا
اور وہ سوچتی ہے
کھو گئے کیوں وہ شب و روز مرے
میری باہوں میں ہمکتے تھے وہ طفل معصوم
جن کے ہونٹوں پہ تبسم کے طلائی سکے
اور آنکھوں میں تھیں خوابوں کی روپہلی کرنیں
دل کے گوشوں میں امنگوں کی دھنک پھیلی تھی
اور اب حال یہ ہے
ان کے ہونٹوں پہ کھنکتے ہوئے سکے جعلی
خوشبوئیں تیز مگر رنگ جھوٹے
رات کے پچھلے پہر چیختے ہیں
روح سے عاری ہیں پنجر ان کے
خوف انہونی کا بے چین کیے رہتا ہے
بد نظر کوئی لگی کھا گئی خوشیاں ان کی
میرے خالق مری تکوین کے ماہر فنکار
اس نئے سال میں واپس کر دے
ان کی آنکھوں کی چمک ہیرے سی
ان کے ہونٹوں کی ہنسی موتی سی
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.