آج دروازے کھلے رہنے دو
یاد کی آگ دہک اٹھی ہے
شاید اس رات ہمارے شہدا آ جائیں
آج دروازے کھلے رہنے دو
جانتے ہو کبھی تنہا نہیں چلتے ہیں شہید؟
میں نے دریا کے کنارے جو پرے دیکھے ہیں
جو چراغوں کی لویں دیکھیں ہیں
وہ لویں بولتی تھیں زندہ زبانوں کی طرح
میں نے سرحد پہ وہ نغمات سنے ہیں کہ جنہیں
کون گائے گا شہیدوں کے سوا؟
میں نے ہونٹوں پہ تبسم کی نئی تیز چمک دیکھی ہے
نور جس کا تھا حلاوت سے شرابور
اذانوں کی طرح!
ابھی سرحد سے میں لوٹا ہوں ابھی،
میں ابھی ہانپ رہا ہوں مجھے دم لینے دو
راز وہ ان کی نگاہوں میں نظر آیا ہے
جو ہمہ گیر تھا نادیدہ زمانوں کی طرح!
یاد کی آگ دہک اٹھی ہے
سب تمناؤں کے شہروں میں دہک اٹھی ہے
آج دروازے کھلے رہنے دو
شاید اس رات ہمارے شہدا آ جائیں!
وقت کے پاؤں الجھ جاتے ہیں آواز کی زنجیروں سے
ان کی جھنکار سے خود وقت جھنک اٹھتا ہے
نغمہ مرتا ہے کبھی، نالہ بھی مرتا ہے کبھی؟
سنسناہٹ کبھی جاتی ہے محبت کے بجھے تیروں سے؟
میں نے دریا کے کنارے انہیں یوں دیکھا ہے
میں نے جس آن میں دیکھا ہے انہیں
شاید اس رات،
اس شام ہی،
دروازوں پہ دستک دیں گے!
شہدا اتنے سبک پا ہیں کہ جب آئیں گے
نہ کسی سوئے پرندے کو خبر تک ہوگی
نہ درختوں سے کسی شاخ کے گرنے کی صدا گونجے گی
پھڑپھڑاہٹ کسی زنبور کی بھی کم ہی سنائی دے گی
آج دروازے کھلے رہنے دو!
ابھی سرحد سے میں لوٹا ہوں ابھی
پار جو گزرے گی اس کا ہمیں غم ہی کیوں ہو؟
پار کیا گزرے گی معلوم نہیں
ایک شب جس میں
پریشانیٔ آلام سے روحوں پہ گرانی طاری
روحیں سنسان یتیم
ان پہ ہمیشہ کی جفائیں بھاری
بوئے کافور اگر بستے گھروں سے جاری
بے پناہ خوف میں رویائے شکستہ کی فغاں اٹھے گی
بجھتی شمعوں کا دھواں اٹھے گا
پار جو گزرے گی معلوم نہیں
اپنے دروازے کھلے رہنے دو
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.