بارہا ایسی تنہائیوں میں
کہ جب تیرگی بول اٹھے
ذائقہ موسموں کا زباں پر یکایک بدل جائے
ہم سب یہی سوچتے ہیں
کہ شاید کوئی اور ہیں
مگر کون؟
وقفۂ عمر میں کس نے سمجھا ہے
سب موت ہی کو وصال اپنا کہتے ہیں
سب موت کے منتظر ہیں
میں نے اور صرف میں نے
تیری سانسوں میں
تیری سانسوں میں
اپنا امڈتا برستا ہوا سیل دیکھا ہے
جو روز اول اور آخر مقدر ہے
جو ابتدا انتہا ہے
لوگ جس کے لیے موت کے منتظر ہیں
لوگ بے وجہ کیوں موت کے منتظر ہیں؟
کوئی شے جھیل کی تہہ میں جب ڈوبتی ہے
تو اک بلبلہ جاگتا ہے
کتنا بے چین سیماب پا
راز تہہ کے اگلتا ہے اور ٹوٹتا ہے
اسی دم
سطح کو چومتی سب ہوائیں یہ کہتی ہیں
''کچھ بھی نہیں
کسی تہہ میں گہرائی میں کچھ نہیں
موت بے فیض سا سانحہ ہے''
لوگ بے وجہ کیوں موت کے منتظر ہیں؟
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.