ساقی
مری مستی میں بھی اب ہوش ہی کا طور ہے ساقی
ترے ساغر میں یہ صہبا نہیں کچھ اور ہے ساقی
بھڑکتی جا رہی ہے دم بدم اک آگ سی دل میں
یہ کیسے جام ہیں ساقی یہ کیسا دور ہے ساقی
وہ شے دے جس سے نیند آ جائے عقل فتنہ پرور کو
کہ دل آزردۂ تمییز لطف و جور ہے ساقی
کہیں اک رند اور واماندۂ افکار تنہائی
کہیں محفل کی محفل طور سے بے طور ہے ساقی
جوانی اور یوں گھر جائے طوفان حوادث میں
خدا رکھے ابھی تو بے خودی کا دور ہے ساقی
چھلکتی ہے جو تیرے جام سے اس مے کا کیا کہنا
ترے شاداب ہونٹوں کی مگر کچھ اور ہے ساقی
مجھے پینے دے پینے دے کہ تیرے جام لعلیں میں
ابھی کچھ اور ہے کچھ اور ہے کچھ اور ہے ساقی
- کتاب : Kullyat-e-majaz (Pg. 141)
- Author : Asrarul Haque Majaz
- مطبع : Kitabi Duniya (2006)
- اشاعت : 2006
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.