سارباں
سارباں نکلے تھے جس وقت گھروں سے اپنے
آشیانوں کو پرندے بھی نہیں چھوڑتے جب
راستے
رستوں کی آغوش ہی میں سوئے تھے
اور ہوا
سبز پہاڑوں سے نہیں اتری تھی
آسماں پر ابھی تاروں کی سجی تھی محفل
سارباں نکلے تھے جس وقت گھروں سے اپنے
رنگ خوابوں میں ابھی گھلتے تھے
جسم میں وصل کی لذت کا نشہ باقی تھا
گرم بستر میں
''گل خوبی'' پریشاں تھی ابھی
دودھ سے خوب بھرا
ایک کٹورا تھا تپائی پہ دھرا
سارباں نکلے تھے جس وقت سفر پر اپنے
چار سو گہری خموشی تھی
چاندنی ریت کے سینے پہ ابھی سوئی تھی
اور دھیرے سے
صبا خوشبوئیں بکھراتی تھی
اوس سے بھیگی ہوئی
گھاس کی ہر پتی جھکی جاتی تھی
رات کے نیل میں کچھ نور گھلا جاتا تھا
یہ جہاں آئینہ خانہ سا نظر آتا تھا
سارباں گہری خموشی میں گھروں سے نکلے
لو چراغوں کی انہیں جھانکتی تھی
دھول قدموں سے لپٹتے ہوئے یہ کہتی تھی:
تم کہیں جاؤ نہ ابھی
سائے اشجار سے رستوں پہ اتر آئے تھے
در و دیوار خموشی سے تھے فریاد کناں
تھیں جگالی میں مگن اونٹنیاں
گھنٹیاں جاگتی تھیں
لذت وصل سے مدہوش ہوا جاگتی تھی
پنکھڑی ہونٹوں پہ خاموش دعا جاگتی تھی
چار سو گہری خموشی تھی
فضا جاگتی تھی
سارباں نکلے تھے جس وقت سفر پر اپنے
- کتاب : Raah-daari mein gunjti nazm (rekhta website) (Pg. 230)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.